کیبنٹ توسیع میں مودی اسٹائل!

زیادہ سے زیادہ گورننس اور کم از کم گورنمنٹ کا نعرہ دینے والے وزیر اعظم نریندر مودی نے جس طرح سے حکومت بننے کے 6 مہینے کے اندر ہی پھر سے اپنے وزیروں کے قلمدان بدلے، اس سے کئی طرح کے سوال کھڑے ہونے لگے ہیں۔ خاص طور سے دو سینئر وزرا کی بھاری بھرکم وزارتیں بدل ڈالی ہیں۔ ان پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ کیبنٹ توسیع میں کئی نئے وزراء پر بھی سوال کھڑے کئے جارہے ہیں۔ سب سے زیادہ بحث دہلی میںآر ایس ایس کی سب سے پہلی پسند ڈاکٹر ہرش وردھن اور سدانند گوڑا کے محکمے بدلنے کو لیکر ہے۔ دونوں کو پہلے کے مقابلے ہلکی وزارتیں ملنے کی وجوہات جانی جارہی ہیں۔ اس ہلکی وزارت ملنے کا مطلب عام طور پر یہ لگایا جاتا ہے کہ وزیر اعظم ان کے کام کاج سے خوش نہیں ہیں۔ یہی وزیر اعظم نریندر مودی کا اسٹائل ہے۔پی ایم کے اسی اسٹائل کا ایک نمونہ ارون جیٹلی، سریش پربھو اور جگت پرکاش نڈا کے معاملے کو بھی دیکھا جاسکتا۔ بڑھتی ضروریات ارون جیٹلی کی درخواست پر ان سے وزارت دفاع تو لے لیا گیا لیکن ان کی بڑھی اہمیت کو وزیر اطلاعات و نشریات وزارت دیکر ایک بار پھر صاف کردیا کہ دیگر کسی وزیر کے پاس اتنے بڑی دو وزارتیں نہیں ہیں۔ برسوں سے شیو سینا کے ایک لیڈر کی حیثیت سے نام پانے والے لیکن کئی برسوں تک گجرات کے وزیر اعلی کے ایک طرح سے مشیر کار اور بھروسے مند رہے سریش پربھو کو ریل وزارت کی ذمہ داری دینا بھی پی ایم کے اسی انداز کا حصہ مانا جارہا ہے۔ ہرش وردھن کو ہلکی وزارت دئے جانے کے پیچھے ایمس کے سی وی سی عہدے سے سنجیو چترویدی کو ہٹانے کا فیصلہ وجہ مانی جارہی ہے وہیں جے پی نڈا کو ہیلتھ وزارت دینے پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ چترویدی کو ہٹانے کے لئے جن لیڈروں نے کوشش کی تھی ان میں نڈا کا نام بھی خاص طور سے لیا جاتا رہا ہے۔ ڈاکٹر ہرش وردھن کے کچھ حمایتی کہتے ہیں کہ پی ایم اس وزارت میں تیزی سے بہتر نتائج کے لئے ایک اچھے وزیر کو لانا چاہتے تھے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ دہلی چناؤ میں پھر سے ہرش وردھن کو وزیر اعلی کے طور پر پیش کرنے کی تیاری کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ نریندر مودی کیبنٹ توسیع کے دوسرے دن اور کانگریس اور عام آدمی پارٹی نے نئے وزرا پر سوال اٹھائے۔ کانگریس نے کہا کہ دیش سے کرپشن مٹانے کا وعدہ کرنے والے مودی نے اپنی کیبنٹ میں مجرمانہ الزامات میں گھرے وزرا کو شامل کرلیا ہے۔ کانگریس کے نشانے پر رما شنکر کٹھوریا، گری راج سنگھ، وائی ایس چودھری جیسے کئی وزرا تھے۔ کانگریس سکریٹری جنرل اجے ماکن نے سوال اٹھایا کہ آخر مودی کی کیا مجبوری تھی کہ انہوں نے ایسے لوگوں کو اپنی ٹیم میں رکھا؟ چناوی حلف نامے میں رما شنکر کٹھوریا نے مانا کہ ان پر23 مقدمے ہیں۔ ممکن ہے دیگر کسی ایم پی کا اتنا زبردست کرمنل ریکارڈ نہیں ہوگا۔وی ایس چودھری کی کمپنی نے 3017.6 کروڑ کا بینک لون نہیں چکایا ہے۔ گری راج سنگھ کے گھر چوری کے بعد چور سے 1.25 کروڑ روپے ملے تھے ، اتنی رقم ان کے پاس کہاں سے آئی یہ معلوم نہیں ہو پایا۔ ایمس کے چیف ویجی لینس افسر سنجیو چترویدی کا تبادلہ تو جے پی نڈا کی شکایت پر کردیا گیا ،اب انہیں ہیلتھ وزارت دے دی گئی ہے۔ اپنی چناوی کمپین کے دوران نریندر مودی نے پارلیمنٹ سے جرائم پیشہ لوگوں کے سفائے کی بات کہی تھی لیکن اس کے الٹ ان کی وزارت میں ملزم وزرا شامل کرلئے گئے ہیں۔ اس سے سوال اٹھنا تو فطری ہے لیکن نریندر مودی اپنے ہی اسٹائل سے کام کرتے ہیں وہ بنا سوچے سمجھے کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔ جو کرتے ہیں اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ مودی کے اسٹائل سے واقف سب یہ بات سمجھ رہے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!