عدم اعتماد کے درمیان اعتماد کا ووٹ!

مہاراشٹر اسمبلی میں بدھ کے روز جن پارٹیوں نے 25 سال تک مل کر ایک ساتھ آواز بلند کی تھی وہی ایوان میں ایک دوسرے کی مخالفت میں آواز اٹھاتی نظر آئیں۔مہاراشٹر اسمبلی میں شیو سینا کے بھاری احتجاج کے باوجودبی جے پی سرکار نے بھاری ہنگامہ کے درمیان ڈرامائی طریقے سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا ہے۔ وزیر اعلی دویندر پھڑنویس اگلے 6 مہینے تک محفوظ ہوگئے ہیں کیونکہ ایک بار اعتماد کا ووٹ مل جانے پر 6 مہینے سے پہلے اکثریت پر کوئی انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی۔ بی جے پی ممبر اسمبلی آشیش شیلار نے اعتماد کے ووٹ کے لئے ایک لائن کی تجویز پیش کی تھی۔ اسمبلی اسپیکر نے ممبران سے ہاں اور نہ میں جواب لیا، جسے صوتی ووٹ کہا جاتا ہے۔شیو سینا اورکانگریس ڈویجن یعنی ووٹنگ کی مانگ کرتے ہوئے احتجاج کرنے لگے۔ سرکار کو باہر سے حمایت دینے کا اعلان کرچکی این سی پی کے ممبر اسمبلی خاموش بیٹھے رہے۔ ہنگامہ کے درمیان اسمبلی اسپیکر نے اعتماد کا ووٹ پاس ہونے کا اعلان کردیا۔ بیشک پھڑنویس سرکار نے زور زبردستی سے یہ اعتماد کا ووٹ پاس کرا لیا ہے لیکن سرکار کتنی ٹھیک ٹھاک کام کرے گی اس پر سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا ہے۔ بہتر ہوتا کہ سرکار ڈویجن یعنی ووٹنگ کروادیتی۔ اس کے پاس ہاؤس کے اندر اکثریت تو تھی کیونکہ این سی پی ا س کی حمایت کررہی تھی۔ اب سرکار نے اپوزیشن کو تنقید کرنے کا موقعہ دے دیا۔ 25سال کا رشتہ بدھ کے روز تار تار ہوگیا۔ اس کیلئے دونوں بھاجپا اور شیو سینا ذمہ دار ہیں۔ بالا صاحب ٹھاکرے اور پرمود مہاجن کی کمی محسوس ہوئی کیونکہ وہ جب تک زندہ رہے بھاجپا اور شیو سینا اتحاد کو چلاتے رہے۔ اب اودھو ٹھاکرے کی اکڑ اور سمجھوتہ نہ کرنے کی ضد نے آج پارٹی کو یہاں لا کر کھڑا کردیا ہے۔ اودھو نے یہ نہیں سمجھا کہ سامنے مودی۔ شاہ کی جوڑی ہے، جو کسی کے دباؤ میں یا بلیک میل کے آگے سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ پھر اودھو ٹھاکرے دن میں کئی بار اپنا موقف بدلتے رہے۔ وہ کسی بھی موقف پر نہیں ٹکتے۔ صبح کو کچھ اور دوپہر کچھ اور شام کو کچھ۔ دوسری طرف بھاجپا نے بھی اپنی پوزیشن خراب کرلی ہے۔ چناؤ کمپین کے دوران نریندر مودی نے این سی پی کو نیچرل کھٹ پٹ پارٹی کہہ دیاتھا۔ آج اسی پارٹی سے صرف اقتدار کی خاطر سمجھوتہ کرلیا ہے۔ دوسرا الزام بھاجپا پر یہ لگتا ہے کہ وہ اپنے اتحادی ساتھیوں کو ساتھ لیکر نہیں چل سکتی۔ پہلے ہریانہ اور اب مہاراشٹر اور مستقبل قریب میں اکالی دل سبھی کا ساتھ بھاجپا چھوڑتی جارہی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ سرکار کیسے ٹھیک ٹھاک چلے گی؟ اسمبلی ودھان کونسل میں اس کی پوزیشن بہت کمزور ہے۔ این سی پی کے سب سے زیادہ ممبر ہیں اور اہم پچھلے بل پاس کرانے میں مشکلیں آئیں گی۔ حالت تقریباً پارلیمنٹ کی طرح ہے جہاں راجیہ سبھا میں بھاجپا کی پوزیشن کمزور ہے۔ مہاراشٹر میں جو ہوا اس سے بھاجپا نے اپنے اوپر تنقید کا موقعہ دے دیا ہے اور یہ پیغام گیا ہے کہ اب وہ صرف اقتدار کی سیاست کرتی ہے۔ جوڑ توڑ اور کسی بھی طرح سرکار بناؤ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟