جی۔ کے واسن کی بغاوت کانگریس کیلئے خطرے کی گھنٹی!
دیش کی سب سے پرانی پارٹی کانگریس اس وقت اپنے سب سے بڑے بحران سے دوچار ہے۔ تاملناڈو کے سینئر کانگریسی لیڈر جی۔ کے واسن نے ایسے وقت میں پارٹی سے بغاوت کی ہے جب پارٹی صدر سونیا گاندھی اور نائب صدر راہل گاندھی کی لیڈر شپ کو لیکر سوال اٹھ رہے ہیں۔ جس میں پارٹی کی پریشانی اور بڑھ رہی ہے۔ تقریباً5 مہینے پہلے لوک سبھا چناؤ میں بھاری شکست کے بعد پارٹی میں ناراضگی کی آوازیں اٹھنے لگیں لیکن یہ پہلا موقعہ ہے جب کسی ریاست کے اہم لیڈر نے الگ پارٹی بنانے کا اعلان کیا ہو۔ جی۔ کے واسن کے والد کے مپنار نے 1996 میں کانگریس چھوڑ کر تمل منیلا کانگریس بنائی تھی تب کانگریس کے ستارے گردش میں ہوا کرتے تھے۔ حالانکہ واسن کا یہ قدم پوری طرح سے مرکوز ہے۔ جہاں آمدنی سے زیادہ املاک کے معاملے میں جے للتا کو سزا سنائے جانے کے بعد وہاں حالات تیزی سے بدلے ہیں۔ اصل میں ریاست کی دونوں بڑی پارٹیاں انا ڈی ایم کے اور ڈی ایم کے کے لیڈرایم کروناندھی جس طرح سے کرپشن کے معاملوں میں قانونی شکنجے میں پھنستے جارہے ہیں اس سے ریاست کی سیاست و تجزیئے بدل رہے ہیں۔ ریاست میں ڈیڑھ سال بعد اسمبلی چناؤ ہونے ہیں۔ اگر آنے والے وقت میں سپریم کورٹ نے جے للتا کی سزا برقرار رکھی اور اگر ٹو جی معاملے میں کنی موہی، دیالو امل اور اے راجہ کو سزا سنا دی ، تب ان دونوں پارٹیوں کے لئے اسمبلی چناؤ میں ووٹروں کا سامنا کرنا مشکل ہوجائے گا۔ لیکن اس کا فائدہ کانگریس شاید ہی اٹھا سکے۔ پچھلے لوک سبھا چناؤ میں پارٹی ریاست سے ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکی۔ حالت یہ ہے کہ پی چدمبرم اور ان کے بیٹے کانتی چدمبرم نے بھی بغاوت کے سر اٹھانے شروع کردئے ہیں۔کانگریس لیڈر شپ کے خلاف بغاوت اور دوسری ریاستوں میں بھی پہنچ رہی ہے۔ چاہے وہ مہاراشٹر اوریا ہریانہ، جارکھنڈ اور جموں و کشمیر کے چناؤ سر پر ہیں لیکن کانگریس اندرونی بحران میں پھنسی ہوئی ہے۔ لیڈروں کی آپسی بیان بازی اور پھر رابرٹ واڈرا معاملہ سمیت تمام تنازعوں میں پارٹی کو گھرنا پڑا ہے۔ ان سب کے چلتے پارٹی کی لیڈر شپ میں دونوں ریاستوں کی چناوی تیاریوں پر اثر پڑنے کا ڈر ستانے لگا ہے۔ آنے والے دنوں میں کئی ریاستوں میں پارٹی کی پنپ رہی بغاوت اور گروپ بندی سے پارٹی ہائی کمان کو سیدھا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ جھارکھنڈ۔ جموں و کشمیر میں25 نومبر کو پولنگ ہونے والی ہے۔ اگر اندرونی بحران سے پارٹی نہیں نکل پاتی ہے آج کانگریس کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ سونیا پہلے جیسی لیڈر شپ دینے کی پوزیشن میں نہیں دکھائی دیتیں جبکہ راہل گاندھی اپنی صلاحیتوں سے اور آگے بڑھ کر لیڈر شپ کرنے کی ان کی قوت ارادی پر سوال کھڑے ہوتے گئے ساتھ ہی سیاسی فلک پر پارٹی کی پہچان پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ ضروری تو یہ تھا کہ لوک سبھا چناؤ میں ہار کے بعد پارٹی اورلیڈر شپ کے سوالوں کا جواب تلاشتی لیکن کوشش یہ ہوئی کہ لیپا پوتی کرکے سارے اشوز کو دبا دیا گیا۔ آج ہر کانگریسی لیڈر شپ کو لیکر پریشان ہے۔ انہیں نہیں لگتا موجودہ قیادت میں ان کے اچھے دن آنے والے ہیں۔ تاملناڈو سے شروع ہوئی بغاوت اور کئی ریاستوں میں بھی پھیل سکتی ہے؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں