لڑکیوں پر علیگڑھ مسلم یونیورسٹی لائبریری میں پابندی سے مچا ہنگامہ!

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے وائس چانسلر ضمیر الدین شاہ کے اس بیان کے بعد تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے کہ یونیورسٹی کے لائبریری میں گریجویٹ سطح کی تعلیم حاصل کررہی طالبات کو اندر جانے کی اجازت دینے کے بعدوہاں زیادہ سے زیادہ لڑکے آنے لگیں گے۔ وائس چانسلر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ضمیر الدین شاہ نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ اگر مولانا آزاد لائبریری میں لڑکیوں کو داخل ہونے کی اجازت دی تو وہاں لڑکوں کی تعداد چار گنا بڑھ جائے گی۔ 1960 میں مولانا آزاد لائبریری کے قائم ہونے کے بعد سے ہی لیڈی کالج کی طالبات کو اس میں اینٹری نہیں مل رہی ہے۔ اس بار اسٹوڈینٹ یونین کے چناؤ میں اسے اشو بنایا گیا ہے۔ لیڈی کالج اسٹوڈینٹ ایسوسی ایشن کے ایک اجلاس میں نائب صدر نورعین بتول سمیت کئی لیڈروں نے وائس چانسلر کے سامنے یہ اشو اٹھایا تھا کہ کیا لیڈی کالج کی طالبات مولانا آزاد لائبریری کی حقدار نہیں ہیں؟ جواب میں وائس چانسلرمسٹر ضمیر الدین شاہ نے کہا تھا کہ لڑکیوں کو اجازت ملنے سے وہاں طلبا کی آمد زیادہ ہوجائے گی اس لئے انہیں اجازت نہیں دی گئی ہے کیونکہ وہاں زیادہ جگہ نہیں ہے لیکن ان کے اس فیصلے کو جان بوجھ کر لڑکیوں کی مخالفت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ گریجویشن کی تعلیم کو چھوڑ کر سبھی نساب کی کلاسوں میں ہزاروں طالبات لائبریری کا استعمال کررہی ہیں۔ انڈر گریجویٹ لڑکیوں کے لئے پہلے ہی لائبریری ان کے کالج میں کھلی ہوئی ہے اور مولانا آزاد لائبریری کالج سے تین کلو میٹر دوری پر ہے۔مرکزی وزیر انسانی وسائل محترمہ اسمرتی ایرانی نے اسے بیٹیوں کی توہین قراردیا ہے۔ اقلیتی امور کی وزیر نجمہ ہیبت اللہ نے کہا لائبریری میں جگہ کی کمی ہے تو طالبات ہی کیوں روکی جائیں وہاں جگہ کو بڑھایا بھی جاسکتا ہے۔کیبنٹ میں شامل کئے گئے نئے وزیر مملکت مختار عباس نقوی نے کہا ایسی رائے زنی سماج کو قابل قبول نہیں ہے۔ نجمہ کا کہنا ہے میں اسے بہت ہی افسوسناک مانتی ہوں خاص کر مولانا آزاد کی صد سالہ تقریب کے موقعہ پر۔ مولانا آزاد نے 62 برس پہلے لڑکیوں کی تعلیم پر اپنی خاص توجہ مرکوز کی تھی۔ میں حیرت زدہ ہوں کہ آج کے دن کسی ادارے کا سربراہ اس طرح کی بات کرے تو یہ حیرت میں ڈالنے والی بات ہے۔ ادھر اے ایم یو کی اسٹوڈینٹ فیڈریشن نے اس مسئلے کو بڑھا چڑھا کر منفی خبروں کے خلاف بدھوار کو مظاہرہ کیا۔ سرسید چوراہے پر2000 سے زیادہ طالبات نے اس میں حصہ لیا۔ ایسوسی ایشن کی صدر گل افشاں خاں نے کہا کہ جس ڈھنگ سے میڈیا نے ان کے مطالبے کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے اس سے طالبات میں کافی ناراضگی پائی جاتی ہے۔ مظاہرین نے ایک اہم اخبار کا پتلا بھی جلایا۔ وائس چانسلر کا نظریہ دقیانوسی ہے اور یہ طالبات کے تئیں پہلے سے ان کی لچر ذہنیت کی دلیل ہے۔ اب کیا جہاں جہاں جگہ کم ہوگی وہاں وہاں لڑکیوں پر پابندی لگے گی؟ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے رویئے کے خلاف ناراضگی فطری ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ مل بیٹھ کر معاملے کو سلجھائیں۔ وائس چانسلر ضمیر الدین شاہ نصیرالدین شاہ کے بھائی ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!