’’کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھانمتی نے کنبہ جوڑا‘‘
یہ جو کہاوت ہے’ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا،بھانمتی نے کنبہ جوڑا‘ان سماجوادیوں پر کھری اترتی ہے ،جو ایک بار پھر جنتا پریوار جوڑنے میں لگ گئے ہیں۔ نریندر مودی کی بڑھتی مقبولیت سے گھبرائے سابقہ جنتا پارٹی کا کبھی حصہ رہیں 6 سیاسی پارٹیوں کے لیڈر جمعرات کے روز سپا چیف ملائم سنگھ یادو کے دہلی میں رہائش گاہ پر متحد ہونے کے اشارے دے رہے ہیں۔ ہم ان کی مجبوری سمجھ سکتے ہیں۔ مودی کے قدم اتنی تیزی سے بڑھ رہے ہیں کہ ان صوبیداروں کو اپنی سلطنت ہاتھ سے جانے کا ڈر ستا رہا ہے لیکن سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ لوک سبھا کے چناؤ تو مستقبل میں ہونے والے نہیں ہیں اس لئے ان کے مورچے کا مقصدلوک سبھا چناؤ تو ہونہیں سکتا۔ ہاں جھارکھنڈ میں اگلے مہینے ہونے والے چناؤ ہیں۔ اس کوشش کے پیچھے ہمیں تو نتیش کمار کا ہاتھ لگتا ہے۔ وہ جھارکھنڈ میں لالو جی کی پارٹی کے ساتھ اسمبلی چناؤ لڑنا چاہتے ہیں۔ اگلے سال بہار کا چناؤ ہونا ہے۔ اترپردیش میں بھی ابھی چناؤ دور ہے۔ دراصل لوک سبھا چناؤ میں ان سبھی علاقائی پارٹیوں کی کارکردگی بہت خراب رہی ہے۔ سبھی کے سامنے اپنے وجود کو بچانے کا بحران کھڑا ہے۔ متحد ہوکر یہ مورچہ قومی سیاست میں اپنی موجودگی درج کرا سکتا ہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں بھاجپا قیادت والی این ڈی اے سرکار کو گھیرنے کی سیاست پر غور و خوض کیا۔ متحد ہوکر ہی پارٹی اپنی ریاستی سرکاروں کو مضبوطی دے سکتی ہے۔ لالو ۔نتیش کو امید ہے کہ جس طرح ساتھ آکر انہوں نے بہار اسمبلی ضمنی چناؤ میں بھاجپا کو روکا تھا اسی طرح آنے والے بہاراسمبلی چناؤ میں بھی اس تجربے کو دوہرانا چاہتے ہیں۔ یہ پارٹی غیر بھاجپا، غیر کانگریس مورچہ بنانے کی بات تو کرتی ہیں لیکن اصلیت سے منہ موڑتی ہے اور اصلیت یہ ہے کہ بہار میں لالو کی پارٹی کانگریس کے ساتھ مل کر چناؤ لڑتی ہے تو یہ غیر کانگریس مورچہ کیسے ہوسکتا ہے۔ بھاجپا نریندر مودی مخالف مورچہ ضرور بن سکتا ہے۔ پچھلے لوک سبھا چناؤ میں بھاجپا کو 30 فیصد ووٹ ملے تھے۔ یعنی 70 فیصد بھاجپا کے خلاف پڑے تھے۔ اگر یہ پارٹی ان 70 فیصد ووٹوں کو اپنے پالے میں لاسکے تو فرق پڑ سکتا ہے لیکن ایسی کوششیں پہلی بھی ہوئی ہیں۔ تیسرا مورچہ، چوتھا مورچہ یا اور کوئی بھی مورچہ بنا لیں ہمیں نہیں لگتا کہ کوئی فرق پڑنے والا ہے۔ بلاشبہ کانگریس کے زوال کے بعد ایک مضبوط اپوزیشن کی ضرورت ہے۔ اگر اپوزیشن مضبوط نہیں ہوگی تو حکمراں پارٹی بلا روک ٹوک ڈکٹیٹر ہوجائے گی جو ہماری جمہوریت کے لئے اچھا نہیں ہوگا۔ کانگریس کے زوال کے بعد اپوزیشن پارٹیوں کا رول اہم ہوجاتا ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب اس کی پہل کرنے والے موقعہ پرستی کو ترک کریں۔ ابھی جو پارٹی مبینہ تیسرے مورچے کی بات کررہی ہے اگر وہ حقیقت میں ایک ہونے کو تیار ہے تو یہ دیش کو بتائیں کہ ان کا لیڈر کون ہوگا؟ ملائم سنگھ یادو، نتیش کمار یا لالو یادو یا پھر کوئی اور؟ یا پھر سے یہ کہا جائے گا کہ ہمارا مورچہ تو چناؤ کے بعد ہی بنے گا؟ جن 6 پارٹیوں نے ساتھ آنے کی پہل کی ہے ان کے لوک سبھا میں کل15 ممبر ہیں۔ سپا کے 5 ، آر جے ڈی کے 4، انڈین نیشنل لوک دل اور جے ڈی یو کے 2-2 لوک سبھا میں تو انکا سرکار پر حاوی ہونا مشکل لگتا ہے لیکن راجیہ سبھا میں ان کی طاقت زیادہ ہے۔ وہاں ان کے ممبر 25 ہیں۔ جنتادل (یو) کے12، سپا کے 10، جے ڈی یو ایس اور آر جے ڈی اور آئی این ایل ڈی کا 1-1 اور کانگریس یا ان نئے گروپ کی مرضی کے بغیر سرکار کوئی بل راجیہ سبھا میں پاس نہیں کراپائے گی۔ اب تک ملائم سنگھ یادو نے غیر بھاجپا غیر کانگریس پارٹیوں کے نام پر جتنی بھی ریلیاں کی ہیں ان میں لیفٹ پارٹیاں ساتھ رہی ہیں۔ ساتھ ہی ترنمول کانگریس، انا ڈی ایم کے، بی جے ڈی بھی شامل رہی ہیں لیکن اس بار ان کا کوئی نمائندہ ملائم کے گھر منعقدہ لنچ میں نہیں آیا تھا۔ نتیش نے کہا نئے گروپ میں ترنمول کانگریس چیف ممتا بنرجی کے رول پر بھی غور ہوا لیکن کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ لیفٹ پارٹیوں سے وابستہ سوال کے جواب میں انہوں نے کہا یکساں خیال رکھنے والی سبھی پارٹیوں سے وقت آنے پر رابطہ قائم کیا جائے گا۔ تعجب نہیں ہوگا کہ آنے والے دنوں میں ان پارٹیوں کے لیڈروں کی طرف سے یہ بھی کہا جائے کہ وہ سماجوادی اور سیکولر واد کے لئے متحد ہورہی ہیں۔ بہتر ہو کے وہ اپنے گھسے پٹے سماج واد اور سیکولر واد پر پھر سے غور کریں۔ سماج واد سے سیکولر وغیرہ کے نعروں پر موقعہ پرستی کی سیاست کرنا خود کو ہی بے بھروسے مند بنانا ہے اور ان پارٹیوں نے اب تک یہی کیا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں