اترپردیش میں’’مایا‘‘کی سیاست!

سیاست میں پیسے کا کھیل چلتا ہے یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور نہ ہی کسی سے یہ بات چھپی ہوئی ہے کہ پارٹی کو لڑنے و پارٹی چلانے کیلئے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیسہ اکھٹا کرنے کا ایک ٹھوس طریقہ ہے ٹکٹوں کا بٹوارہ۔ سب جانتے ہیں لیکن بات کوئی نہیں کرتا۔ اترپردیش کی سیاست میں یہ پہلا موقعہ ہے جب بہوجن سماج پارٹی چیف مایاوتی نے اس اشو کے بارے میں پریس کانفرنس کرکے انکشاف کیا ہے۔ مایاوتی نے سابق مرکزی وزیر ڈاکٹر اکھلیش داس کے پارٹی چھوڑنے اور ان پر الزام لگانے کا کرارا جواب دیا ہے۔ بسپا کے راجیہ سبھا میں ممبر ڈاکٹر اکھلیش داس نے الزام لگایا تھا بسپا میں بغیر پیسے کے ٹکٹ نہیں ملتا۔ ایسے میں انہیں بسپا سے الگ ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ داس کا کہنا ہے کہ اسمبلی چناؤ میں جنرل سیٹ کے لئے 1 کروڑ روپے اور ریزرو سیٹ کے لئے50 لاکھ روپے کی مانگ کی جاتی ہے۔ یہ لین دین کسی کے سامنے نہیں ہوتا۔ مایاوتی نے اس الزام کا کرارا جواب دیتے ہوئے کہا ڈاکٹر داس 100 کروڑ روپے دے کر پارٹی کا ٹکٹ پانا چاہتے تھے لیکن پارٹی نے طے کیا ہے کہ وہ200 کروڑ بھی دیں تو انہیں ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔ راجیہ سبھا کے امیدوار کے اعلان کے بعد مایاوتی سے ڈاکٹر داس کے پارٹی چھوڑنے اور ٹکٹ کیلئے پیسے کے الزام پر رد عمل مانگا تھا۔ مایاوتی نے کہا کہ داس پہلے کانگریس میں ہوا کرتے تھے جب بسپا میں آئے تو کانگریس نائب پردھان راہل گاندھی پر بھی الزام لگائے گئے۔ بسپا میں آنے پر ویشہ سماج کو پارٹی کو جوڑنے کا وعدہ کیا اور راجیہ سبھا ٹکٹ دینے کی گزارش کی تھی۔ سچ کیا ہے یہ تو مایاوتی اور اکھلیش داس ہی جانتے ہوں گے لیکن اس پورے واقعہ سے ایک بات تو صاف ہوگئی ہے کہ سیاست میں اصولی اقدار ختم ہوچکی ہیں۔ ایک وقت تھا جب راجیہ سبھا میں اعلی تعلیم یافتہ دانشور ،ڈاکٹر، سائنسداں، ادیب اور صحافی بھیجے جاتے تھے اور وہ کسی بھی قومی اشو پر ہورہی بحث میں حصہ لیاکرتے تھے۔ لوگ انہیں سنتے بھی تھے لیکن پچھلے کچھ برسوں میں ٹیلنٹ پر پیسہ حاوی ہوگیا ہے۔ سیاسی اقدار محض قیمت میں بدل گئی ہے۔ آج محض پیسے کی طاقت پر نامی گرامی صنعت کار، تاجر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پہنچ رہے ہیں۔ پیسہ اتنا حاوی ہوگیا ہے کہ پارٹیاں شاطر جرائم پیشہ افراد کو ٹکٹ دینے سے پرہیز نہیں کرتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ممبران پارلیمنٹ میں باغیوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ علاقائی پارٹیوں کے لیڈروں نے دھن کبیروں کو ٹکٹ دے کر اپنی جیبیں بھری ہیں۔ بابا صاحب امبیڈکر، مہاتما گاندھی اور دیگر معزز شخصیات کا نام محض بھنایا جاتا ہے۔ ان کے اصولوں پر کون چل رہا ہے؟ ایسا نہیں ہے کہ آج سیاست میں شاندار لوگوں کی کوئی جگہ نہیں لیکن اگر کسی چیز کی سخت ضرورت ہے تو وہ یہ کہ سیاست میں روایتی اقدار کی بنیاد پر ٹکٹ بٹوارہ کریں۔ وزیر اعظم نریندر مودی بھی اسی میں یقین رکھتے ہیں اور سیاست کو گنگا کی طرح صاف ستھرا بنانے کی کوشش میں لگے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟