اور اب پاکستان میں بھی پیدا ہوا ایک ’پپو‘ بلاول بھٹو!

پاکستان پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے بیٹے بلاول بھٹو نے کشمیر کے بارے میں ایک ایسا بیان دیا ہے جس وجہ سے وہ مذاق کا موضوع بن گئے ہیں۔ بلاول نے جمعہ کو ملتان میں پارٹی کے ورکروں سے خطاب میں کہا تھا میری پارٹی بھارت سے پورا کا پورا کشمیر حاصل کرے گی۔ میں اس کا ایک انچ حصہ بھی نہیں چھوڑوں گا۔ دیگر صوبوں کی طرح پورا کشمیر پاکستان کا حصہ ہے، ہم اسے بھارت سے واپس لے کر رہیں گے۔ اس دوران سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بھی ان کے ساتھ موجود تھے۔ لگتا ہے کہ اب پاکستان کوبھی ایک ’’پپو‘‘ مل گیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کہا تھا پاکستان ہندوستان سے ایک ہزار سال تک جنگ جاری رکھے گا۔ دراصل پاکستانی لیڈروں کے سر پر سے کشمیر کا بھوت اترتا نہیں دکھائی پڑ رہا ہے۔ ایسا شاید اس لئے بھی کہ کٹر پسندوں اور آئی ایس آئی اور فوج کی تکڑی میں پھنسا اصلی اقتدار تک جمہوری پارٹی اور سرکاروں کی ویسی پکڑ نہیں بن پائی جیسی بھارت میں ہے جبکہ کٹر پسند آئی ایس آئی اور فوج کا گٹھ جوڑ بھارت مخالف تیوروں سے عوام کو ورغلائے رکھنے کے ساتھ ہی ذاتی مفاد کی تکمیل میں کامیاب دکھائی پڑتی ہے۔ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی کمان سنبھال رہے ان کے بیٹے بلاول نے کشمیر پر یہ متنازعہ بیان دے کر پاکستان کی سیاست پر پیٹ جمانے کا داؤ کھیلا ہے۔ ناتجربہ کاری اور بچکانی حرکتوں کے لئے بلاول پہلے بھی تنازعات میں رہے ہیں۔ غور طلب ہے کہ پاکستان کی سیاست اور فوجی تیاری بھارت اور کشمیر کے ارد گرد گھومتی ہے۔ پاکستان فوج اور سرکار کو اپنے زیر اثر رکھنے کو اس اشو کو استعمال کرتی ہے اور سیاسی پارٹی بھی کشمیر اشو کو ہوا دے کر اقتدار میں پہنچنے کے لئے کسرت کرتے رہتے ہیں۔ نانا ذوالفقار علی بھٹو ایک ہزار سال تک لڑنے کی بات کرتے کرتے پھانسی کے پھندے پر لٹک گئے۔ ممی بے نظیر بھٹو کشمیر کی آزادی کی بات کرتے کرتے اور اسے واپس لینے کی بات کرتے ہوئے گولی کا شکار بن گئیں۔پیڑھیاں بدلی ہیں مگر ذہنیت نہیں بدلی۔ پاکستان میں اگلے چناء میں ابھی چار سال باقی ہیں اور اپوزیشن کی تحریک سے تازہ تعطل کے بعد سیلاب سے بے حال اس ملک کے بڑے حصے کو راحت کی ضرورت ہے۔ ایسے میں کشمیر پر بولنے کے بجائے اگر بلاول بھٹو ملک کی بہتری کے بارے میں کچھ بولتے تو اس سے ان کی سنجیدگی کا پتہ چلتا۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں نے بھی اس فارمولے کو اپنا لیا ہے کہ بھارت کے خلاف زہراگلو اور حمایت حاصل کرو۔ کبھی کبھی توبھارت مخالف بیانوں کی ایسی باڑلگتی ہے کہ مانو اپنا پکوڑا زیادہ کرکرا ثابت کرکے ہی رہنا ہے۔ بلاول کی اس تقریر کو بڑبولے پن کے سوائے اور کیا کہا جائے؟ بلاول شاید یہ بھول گئے کہ ان کے نانا کے بڑ بولے پن کی وجہ سے مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) بن گیا۔ بلاول اقتدار سے دور ہیں انہیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ اس بار حماقت کی تو مقبوضہ کشمیر کی بات کرتے ہیں اور کشمیر کا اشو اٹھا کر وہاں کی عوام کو لمبے عرصے تک بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ یقین ہے کہ بلاول کے اس بیان کو کسی نے بھی سنجیدگی سے شاید لیا ہو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟