214 کول بلاکوں کا الاٹمنٹ منسوخ!

آخر کار سپریم کورٹ نے کوئلہ کھانوں کی وہ سبھی الاٹمنٹ منسوخ کردی ہیں جن کومنمانے ڈھنگ سے سال1993 سے لیکر2010 تک بانٹا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے 218 کول بلاکوں میں سے سرکاری کمپنیوں سے وابستہ4 کوئلہ کانوں کو چھوڑ کر باقی214 کو کھلی اور مقابلہ جاتی نیلامی کیلئے راستہ صاف کردیا ہے۔ جن 46 کھانوں کو ان سے کوئلے کی پیداوار شروع ہونے کی بنیادپر راحت ملنے کی تھوڑی امید تھی سپریم کورٹ نے انہیں کوئی بھی رعایت نہیں دی۔ حالانکہ ان کھانوں سے وابستہ کمپنیوں کو آئندہ چھ مہینے تک پیداوار جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے تاکہ کوئلے کی موجودہ قلت اور نہ بڑھ جائے کیونکہ ان کھانوں کے الاٹمنٹ میں منمانی ایک گھوٹالے کی شکل لیکر سامنے آچکی تھی اس لئے اسی طرح کے فیصلے کی امید کی جارہی تھی اس لئے اور بھی کیونکہ خود مرکزی سرکار نے یہ کہا تھا کہ ایسے کسی فیصلے سے اسے اعتراض نہیں ہوگا۔ ایک ساتھ اتنی بڑی تعداد میں کوئلہ کھانوں کی الاٹمنٹ منسوخ ہونا پالیسیوں کو نافذ کرنے میں منمانی برتنے کے مضر اثرات کی علامت ہے۔ قدرتی وسائل کے معاملے میں اس طرح کی منمانی اور جانبدارانہ رویہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے پہلے ہی بحران میں پھنسی معیشت کے لئے اور بھی مشکلیں کھڑی ہوسکتی ہیں۔ کوئلہ بلاک الاٹمنٹ گھوٹالے میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے پچھلے 21 برس کے دوران اقتدار اعلی میں رہی پانچ حکومتوں کے چہرے پر سیاہی پوت دی ہے کیونکہ ان برسوں میں13 سال تک کانگریس یا اس کی رہنمائی والی سرکار رہی ہے اس لئے فیصلے کی سیاہی سب سے زیادہ اسی کے حصے میں آئی۔ سپریم کورنے بے قاعدگیوں کی وجہ سے جن 14 کول بلاکوں کی الاٹمنٹ منسوخ کی ہے ان میں سب سے زیادہ الاٹمنٹ نرسمہا راؤ اور منموہن سنگھ سرکار کے دور عہد میں ہوئیں۔ اس دوران لمبے وقت تک اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کے پاس کوئلہ وزارت کی بھی ذمہ داری تھی اور تقریباً دو تہائی کوئلے بلاکوں کا الاٹمنٹ بھی اسی دور میں ہوا۔ اس کوئلہ گھوٹالے میں جب سی اے جی نے انکشاف کیا اور 1.86 ہزار کروڑ روپے کے نقصان کا معاملہ سامنے آیا تو دیش کو بہت حیرت ہوئی لیکن زیادہ حیرت دھاندلی کے بعد حکمرانوں کی سینا زوری کو دیکھ کر ہوئی۔ زخموں پر نمک چھڑکنے کے انداز میں دلیلیں دی گئیں۔ جب کوئلہ زمین سے نکلا ہی نہیں تو نقصان کیسا؟ کانگریس کے لیڈروں اور وزرا نے اس وقت کے سی اے جی ونود رائے پر شخصی حملے کئے لیکن اس وقت کے وزیر اعظم سے سوال ہوئے تو انہوں نے ہزاروں جوابوں سے بہتر خاموشی اختیار کرنا ہی بہتر سمجھا۔ جب سول تنظیموں کی کوشش سے جانچ شروع ہوئی تو بعد میں یہ شرمناک انکشاف ہوا۔ ایک مرکزی وزیر اور پی ایم او میں افسر سی بی آئی کی جانچ رپورٹ میں تبدیلی کرانے میں لگے رہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے یہ فیصلہ مودی سرکار کے لئے آفت ثابت ہوسکتا ہے ۔ جب دیش کی معیشت میں کوئی بہتری کے آثار دکھائی دے رہے ہوں تب اس طرح کی چوٹ سے بڑا نقصان ہو سکتا تھا۔ کوئلہ الاٹمنٹ منسوخ ہونے کا اثر چوطرفہ ہوگا۔ بینکوں، فولاد اور بجلی سمیت کئی نجی اور پبلک سیکٹر کی کمپنیوں پر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا اثر پڑے گا کیونکہ کوئلہ سیکٹر اور ان کے 7.65 لاکھ کروڑ روپے کا داؤ لگا ہے۔ سب سے زیادہ اثر بینکوں پر ہوگا۔ یہ ٹھیک ہے کوئلہ کھانوں کے الاٹمنٹ منسوخ ہونے کے بعد مرکزی سرکار نے ایک نئی شروعات کرنے کی بات کہی ہے لیکن اس کام میں دیری نہیں ہونی چاہئے۔ اگر حکومت کو ایسا کوئی راستہ نکالنا ہوگا جس سے معیشت متاثر ہونے کے اندیشات کو دور کیا جاسکے۔ بہرحال ابھی اس بندر بانٹ کی سازش کی جانچ جاری ہے۔ ضروری ہے بڑے عہدوں پر رہے ان لوگوں کو بھی پوچھ تاچھ کے دائرے میں لایا جائے جن پر دیش کے وسائل کی حفاظت اور ان کے صحیح استعمال کا دارومدار تھا لیکن ان کے سامنے ان کی کھلی لوٹ ہورہی تھی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!