اسرو کی تاریخی کامیابی ہے’’ منگل مشن‘‘!

بدھ کے روز یعنی 24 ستمبر کی صبح جب دیش نیند کے خمارسے اٹھا ہی تھا کہ بھارت منگل کی دہلیز تک پہنچ چکا تھا۔ یہ خوشی اور فخر کی بات ہے کہ بھارت دنیا کا پہلا دیش ہے جو اپنی پہلی ہی کوشش میں ایسا کرنے میں کامیاب رہا۔ مریخ تک پہنچنے والے امریکہ ، روس اور یوروپ کی کئی کوششوں کے بعد ہی منگل کے مدار میں کئی علامتیں پائی گئی تھیں۔ تین سال پہلے چین بھی ایسی کوشش میں ہار چکا ہے۔ اس لئے اس کامیابی تک پہنچنے والے ہم پہلے ایشیائی ملک ہیں۔ زمین سے مریخ کی اوسطاً دوری تقریباً22 کروڑ50 لاکھ کلو میٹر ہے۔ اس دوری کو منگل یان (مریخ شٹل) نے قریب 80 ہزار کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے اس سفر کو طے کیا۔ منگل یا ن کو پچھلے سال5 نومبر کو 2 بجکر36 منٹ پر اسرو نے سری ہری کوٹا خلائی مرکز سے روانہ کیا تھا۔ اسے کولر سیٹلائٹ لانچ وہیکل (پی ایس ایل وی) C25 کی مدد سے چھوڑا گیا تھا۔ اس پر 450 کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے۔ اس منگل یان کا وزن 1350 کلو ہے۔ اس کو چھوڑے جانے کے بعد سے اس کے سفر میں 7 تبدیلیاں کی گئیں تاکہ یہ منگل کی سمت میں اپنا سفر جاری رکھ سکے۔ اس مہم کے پیچھے بھارت کا مقصد ہے کہ اس مشن کے تحت خلائی سائنس کے معاملے میں بھارت اپنا دبدبہ قائم کرے۔ حقیقت یہ ہی ہے کہ اگر بھارت اس مہم میں کامیاب ہوتا ہے تو اسے خلائی سائنس کے معاملے میں دنیا میں نیا مقام حاصل ہوجائے گا۔ منگل یان کے ذریعے بھارت مریخ ستارے پر زندگی کی علامتیں تلاشنے کے ساتھ وہاں کی آب و ہوا کی بھی جانچ کرنا چاہتا ہے۔ وہ یہ بھی پتہ لگانا چاہتا ہے کہ اس سرخ سیارے پر بھی میتھین موجود ہے یا نہیں؟ میتھن گیس کی موجودگی انسانی سرگرمیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس کے لئے منگل یان کو قریب15 کلو وزن کے کئی انتہائی جدید ترین آلات سے نصب کیا گیا ہے۔ اس میں کئی پاور فل کیمرے بھی لگے ہیں۔میتھن کے علاوہ معدنیات کے بارے میں بھی پتہ چل سکے گا۔ اس سے ان اسباب کا بھی پتہ چل سکے گا جن کے چلتے کبھی زندگی کیلئیبہتر یہ سیارہ خوشک سالی کا شکار بن گیا۔ کیا ہماری زمین پر بھی کبھی ایسا زندگی اور موت کا خطرہ آیا تو کیا مریخ ہماری پناہ گاہ بن سکتا ہے؟ انسان کے وجود سے سیدھے جڑے ایسے سنگین سوالوں کے جواب اس مریخ سیارے سے وابستہ ہیں۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے دنوں خلائی مہم پر ہالی ووڈ میں ’’گریویٹی‘‘ نامی ایک فلم بنی تھی جس کا بجٹ ہماری اس منگل مہم سے دوگنا تھا۔ جو کام امریکہ4026 کروڑ روپے لگا کر ناسا نے کیا وہ ہم نے صرف450 کروڑ روپے میں کردکھایا۔ گریویٹی فلم کی لاگت بھی 600 کروڑ تھی۔ سستی لاگت لیکن بھروسے مند کوالٹی والی ہماری خلائی صنعت دنیا کو غریب اور ترقیافتہ ملکوں کے خوابوں کی تکمیل کرنے کا ذریعہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کامیاب مشن کا ایک اقتصادی فائدہ غیر ملکی سیٹیلائٹ لانچ کرنے میں ملے گا۔ ظاہر ہے خلائی بزنس کے معاملے میں بھی بھارت نئی چھلانگ لگا سکتا ہے۔ ویسے اب بھی بھارت کو غیرملکی سیٹلائٹ چھوڑنے کے کئی آرڈر مل چکے ہیں۔ اس انتہائی شاندار کامیابی پر اسرو اور تمام ہندوستانی سائنسدانوں کو بہت بہت مبارکباد۔ بھارت کی سنہری تاریخ میں ایک اور کامیابی جڑ گئی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟