اسکاٹ لینڈ کی’ نا‘، علیحدگی پسندوں کیلئے ایک سبق ہے!

ہندوستانی بر صغیر سمیت دنیا کے مختلف علاقوں میں مملکتوں کو تقسیم کرنے والا برطانیہ خود ٹوٹنے سے بال بال بچ گیا۔ اگرچہ صرف چار لاکھ اسکوائٹش باشندے یعنی لکھنؤ کے کسی محلے کے برابر آبادی والے اسکاٹ لینڈ کی آبادی کے حق میں رائے دیتے تو گریٹ برطانیہ ٹوٹ جاتا۔ اسکاٹ لینڈ نے ریفرنڈم میں 55 فیصدی لوگوں نے ’نہیں‘ ووٹ دیا۔ یعنی وہ اسکاٹ لینڈ سے الگ نہیں ہونا چاہتے۔ برطانیہ ہی نہیں پورے یوروپ کی سانس اس بات کو لیکر اٹکی ہوئی تھی کہ اگر اسکاٹ لینڈ الگ ہوگیا تو کیا ہوگا؟ یہ پچھلے کافی وقت سے لگ رہا تھا کہ حکمراں اور اپوزیشن کی طاقت تقریباً برابر ہے اس لئے آزادی چاہنے والوں اور انگلینڈ کیحمایتی رائے رکھنے والوں کا یہ مقابلہ کانٹے کا تھا۔ 10 دن میں ایسی تبدیلی آئی کہ ’ہاں‘ کو ’نہیں‘ میں ووٹ دے دیا۔ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی جذباتی اپیل نے ماحول کو بدلنے میں کافی مدد کی۔کیمرون ملی بینڈ اور نک استک نے انگلینڈ کو زیادہ اختیارات دینے کے عہد نامے پر دستخط کئے۔السٹریل گارلنگ کے ساتھ برطانوی میڈیا نے بھی اس معاملے میں زور دار مہم چلائی۔ مہارانی ایلزبتھ نے بہت سوچ سمجھ کر ووٹ دینے کی اپیل کی تھی۔ نوجوانوں کولالچ دیا گیا کہ برطانیہ سے آزادہوکر اپنی نوکری، پنشن اور صحت سہولیات اور مستقبل کو خطرے میں مت ڈالئے۔ اگر اکثریت میں علیحدگی پسندی کے حق میں ووٹ دیا ہوتا تو برطانیہ امپائر یعنی یونائیٹڈ کنگ ڈم باقاعدہ طور سے ختم ہوجاتی۔ جس اسٹیٹ کا کسی دور میں آدھی دنیا پر راج ہوا کرتا تھا اور جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کی حکومت میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا اس سامراجیہ کا نظام کا مکمل خاتمہ ہوجاتا۔ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو اس بکھراؤ وہونے سے بچانے کا سہرہ ضرور جاتا ہے۔ انہوں نے اپنا بہت کچھ داؤ پر لگادیا تھا۔ یہ ریفرنڈم برطانیہ کی عمدہ تھیوری کا جواب ہے جو دوسروں کو کمتر دیکھتی ہے۔ اسکاٹ لینڈ میں لندن کے خلاف غصہ نہیں پنپتا مگر اس کے ضمیر کی وکالت کرتا ہے۔ مائیگریٹ تھیچر کے وقت میں ان کی پارٹی اسکاٹ لینڈ میں ایک سیٹ بھی حاصل نہیں کرپائی تھی اسی کے مقابلے میں تھیچر نے وہاں کمیونٹی ٹیکس لگانے کا فیصلہ لیا تھا۔ ڈیوڈ کیمرون کی پارٹی کے صرف ایک ایم پی اسکاٹ لینڈ سے ہیں اس کے باوجود اس کا طور طریقہ بالادستی والا ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ ریفرنڈم کا یہ نتیجہ برطانوی رکاوٹوں پر لگام لگانے کے ساتھ دنیا بھر کے دیشوں کے رویئے میں لچیلا پن آئے گا۔ ویسے یہ ریفرنڈم اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ اس اشو کو کس طرح سے پر امن اور دلیل آمیز طریقے سے سلجھایاگیا ہے ۔ بھارت میں جو لوگ کٹر راشٹروادی ہیں اور اس کے ہمنوا ہیں اور جو علیحدگی پسند ہیں ان سب کے لئے یہ سبق ہیں۔ کٹر حب الوطنی اور اصلاح پسند رویئے کی وجہ سے علیحدگی پسندی کمزور ہوتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ علیحدگی پسندی سے الگ ہوئے دیش کے شہریوں کا بھلا ہی ہو یہ ضروری نہیں۔ چھوٹے دیش اقتصادی اور فوجی سیکٹر میں دوسری طاقتوں پر منحصر رہتے ہیں اور ان پر ایسی طاقتوں کا کھیل کا ہتھیار بن جاتے ہیں۔ اسکاٹ لینڈ کے لوگوں نے بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ اپنی رائے دی ہے۔ دونوں اسکاٹ لینڈ اور برطانیہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟