افغانستان کا باعث تشویش مستقبل!

ایک پڑوسی ملک دوست ہونے کے ناطے بھارت کو افغانستان کی اندرونی سیاست پر گہری نگاہ رکھنی ہوگی۔ ویسے بھی اگر امریکہ وہاں سے جاتا ہے تو اس کے نتائج سے بھی ہندوستان کو اثر انداز ہونا پڑے گا۔ افغانستان میں مہینوں سے جاری سیاسی تعطل آخر کار مثبت سمجھوتے کے ساتھ ختم ہوگیا ہے۔ صدر کے دونوں امیدواروں کے درمیان اقتدار کی تقسیم کا معاہدہ کروا کر امریکہ نے افغانستان میں اپنا مقصد حاصل کرلیا ہے لیکن اس عمل میں جمہوری طریقے پر چناؤ کی توقعات کو ضرور دھکا لگا ہے۔ سمجھوتے کے تحت اشرف غنی صدر بنیں گے جبکہ ان کے حریف عبداللہ عبداللہ کو سرکار کے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ ملے گا۔یہ عہدہ وزیر اعظم جیسا ہوگا جسے کافی اختیارات حاصل ہوں گے۔ لیکن کیا قومی اتحاد کی سرکار کی جمہوری ساکھ بھی ہوگی یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ اپریل میں ہوئے چناؤ کی طالبان نے مخالفت کی تھی اس کے باوجود عام لوگوں نے بھاری تعداد میں حصہ لیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ افغانستان کی عوام میں اپنی سرکار کو چننے اور جمہوری نظام کے قائم ہونے کی کتنی قوت خواہش ہے۔ لاکھ ٹکے کا سوال ہے کیا نئی سوال افغان عوام کی توقعات پر کھری اتر سکے گی؟ حقیقت یہ ہے کہ حامد کرزئی بھلے ہی ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک اقتدار میں رہے لیکن کابل سے ان کا کنٹرول نہ کے برابر تھا۔ ساتھ ساتھ ان کے انتظامیہ میں کرپشن بھی پھلا پھولا اور بے روزگاری بھی بڑھتی گئی۔ امریکہ اور نیٹو فوجوں کی واپسی کے اشو پر امریکہ کے ساتھ ان کی تلخی بڑھتی گئی۔ حالت یہاں تک بگڑ گئی کہ امریکہ چور دروازے سے طالبان سے بات کرنے کو تیار ہوگا۔ حقیقت میں افغانستان میں جمہوری سرکار بھلے ہی چل رہی ہے لیکن طالبان نے بھی ان برسوں میں پھر سے خود کو مضبوط کیا ہے اور جب امریکی فوج وہاں سے لوٹ جائے گی تو طالبان کے اور مضبوط ہونے کا اندیشہ ہے۔ غور طلب ہے کہ جون میں صدارتی چناؤ کے دوسرے دور کی پولنگ کے بعد جب ووٹوں کی گنتی میں غنی کو آگے بتایا گیا تھا تب عبداللہ عبداللہ نے چناؤ میں بھاری دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے نتائج کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔ تب غنی اور عبداللہ کے حمایتیوں میں خون ریز جھڑپیں ہوئیں۔ یہ امریکہ کے لئے بری خبر تھی۔ اس کی امکانی تشویش افغانستان میں تعینات 31 ہزار امریکی اور 17 ہزار دیگر نیٹو فوجیوں کو نکالنے کی ہے۔ سیاسی اتھل پتھل کے درمیان یہ کام زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔ اس سال کے آخر تک امریکہ کا اپنی باقی فوج واپس بلانے کا پلان ہے۔ ایسے میں سیاسی تعطل کا پیدا ہونا، اقتدار کو کمزور کرنا اور طالبان کو اپنا اثر بڑھانے کا موقعہ ملے گا۔ افغان مسئلہ بھارت کے لئے بھی تشویش کا باعث ہے کیونکہ بھارت کا بہت کچھ داؤ پر ہے۔ یہاں کی حالت سے بھارت ، پاکستان اور یہاں تک کہ پوری دنیا کے لئے تشویش کا موضوع بن رہی ہے کیونکہ یہ دیش القاعدہ اور اس کے سرغنہ بن لادن کی سرگرمیوں کا ٹھکانا بنا رہا۔ آج بھی طالبان افغانستان کو سب سے محفوظ جگہ مانتا ہے۔ امید کرتے ہیں کہ نئی سرکار طالبان پر کنٹرول بنائے رکھنے میں کامیاب رہے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟