کیا چین میں اقتدار کی لڑائی چل رہی ہے؟

مشرقی لداخ کے چمارمیں جس طرح سے چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے جوانوں کی سرگرمیاں جاری ہیں ، اس سے ان کے صدر جنپنگ کے دورہ بھارت سے پیدا جوش ہوا میں اڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ جنپنگ کی زبان پھر سے بدلی ہوئی ہے۔ بھارت کا نام لئے بنا وہ اپنی فوجوں کو علاقائی جنگ جیتنے کے لئے تیار رہنے کی صلاح دے رہے ہیں۔ یہ وہ ہی شی ہیں جنہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے چمار میں چینی فوجیوں کی دراندازی اور وہاں اڈے جمانے پر اعتراض پر اپنے فوجیوں کو فوراً واپس لوٹنے کے اشارے دئے تھے۔ حالانکہ آدیش کے باوجود چینی فوجی پوری طرح سے نہیں لوٹے ہیں۔ جن ملکوں میں برائے نام جمہوریت ہے وہاں فوج کا رول بہت مضبوط رہا ہے چاہے وہ پاکستان ہو یا چین۔دونوں ملکوں کی حکومتوں اور وہاں کی فوج کے درمیان فرق صاف دکھائی پڑتا ہے اور یہ فرق کہیں نہ چاہ کر بھی پیدا کیا جاتا ہے۔ پاکستان جمہوری حکومت اور بھارت سے تعلقات کو لیکر بہت سنجیدہ ہے۔ نواز شریف چاہتے ہیں کہ بھارت سے ان کا تعلق اچھا ہو۔ انہوں نے پچھلے مہینے اس بات کو صاف طور پر کہا تھا کہ بھارت سے تعلقات بہتر بنانا بہت ضروری ہیں ۔ مگر پاکستانی فوج مسلسل جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتی آرہی ہے۔ سرحد پر اس کے جوان گولیاں برسا رہے تھے اور آخر میں ان کی بندوقیں خاموش ہوئیں جب ہندوستانی فوجیوں نے انہیں زبردست جواب دیا۔ دراصل وہاں کی فوج اور پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی بے لگام رہی ہے۔ جمہوری حکومتیں ان کے رحم و کرم پر چلتی ہیں۔ چین کے صدر سے وابستہ باتوں کے باوجود ان کے فوجیوں کے ذریعے امتیاز کا رویہ اپنانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ چینی سرکار اور فوج میں کتنا اختلاف ہے۔ جنپنگ کا اپنی فوج کو حکمراں کمیونسٹ پارٹی کے تئیں پوری وفاداری رکھنے اور سبھی احکامات کی تعمیل کرنے کی نصیحت دینا اس کا ثبوت ہے۔ چینی سرکاری اخبار ، ایجنسی زنہوا کے مطابق پیپلز لبریشن آرمی کے فوجی کمانڈروں کی میٹنگ میں جنپنگ نے فوج سے ڈسپلن کی سختی سے تعمیل کرنے اور بین الاقوامی اور گھریلو سلامتی کے تئیں بہتر سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنے کو کہا۔ انہوں نے چین آف کمانڈ کو درست رکھنے کی بھی صلاح دی۔ خیال رہے جنپنگ فوج پر کنٹرول رکھنے والے مرکزی فوجی کمیشن کے چیف اور حکمراں کمیونسٹ پارٹی کے سکریٹری جنرل بھی ہیں۔ ایسے میں ہم نہیں مان سکتے کہ ان کی فوج ان کے احکامات کو نظر انداز کرے۔ کیا اس کا یہ مطلب نکالا جاسکتا ہے کہ جنپنگ اور چینی فوج کے کمانڈروں میں اختلاف ہے اور چینی فوج ایک طرح سے اقتدار کی لڑائی میں لگی ہوئی ہے۔ یہ ماننا مشکل لگتا ہے کہ ہندوستانی سرحد میں چینی فوجیوں کی حرکتیں چینی سرکار کی جانکاری کے بغیر جاری ہیں؟ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت سے لوٹنے کے بعد جنپنگ نے پی ایل اے کے کچھ جنرلوں کو ترقی دے دی ہے۔ اور پی ایل اے کی تعریف کرنے کے ساتھ اس علاقے میں جنگ میں کامیاب ہونے کے لئے تیار رہنے کو کہا ہے۔ آخر کار شی جنپنگ کا علاقائی جنگ میں مطلب کیا ہے؟ کیا ان کا اشارہ چمار سیکٹر میں جاری کشیدگی کی طرف ہے؟ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان کے اس بیان کو بنیاد بنا کر پیدا خدشات کو چینی وزارت نے ان کو محض قیاس آرائیاں قراردیا ہے۔ موجودہ صدر بھی جنپنگ وہاں کے حکمراں نائک ہونے کے ساتھ ساتھ وہاں کی فوج کے چیف بھی ہیں۔ ایسے میں ممکن نہیں لگتا کہ ان کی فوج ان کے احکامات کی خلاف ورزی کرے۔ سرحد پر تقسیم کی صحیح نشاندہی نہ ہونے کی وجہ سے جنگ کی صورتحال کھڑی ہوسکتی ہے۔ مگر اسے الجھائے رکھنا چین کی حکمت عملی ہوسکتی ہے۔ یہ چین کی سیاسی منشا رہی ہے بیشک اس بات کا اندیشہ بالکل نہیں ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان پیدا کشیدگی جنگ میں تبدیل ہوجائے لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ چین کی اندرونی سیاست یا اقتدار کی جنگ تشویش کا باعث ہوسکتی ہے ساتھ ہی یہ چینی برتاؤ یہی بتاتا ہے کہ ان کی نیت میں کھوٹ ضرور ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟