یاد رہے چین کے دو چہرے ہیں دوستی کرو پر ساودھانی سے!

ایسا بھارت کی تاریخ میں کم ہی ہوا ہے جب کسی دیش کا راشٹرپتی اپنے بھارت کادورہ کسی دوسرے بھارتیہ شہرسے کرے۔ میں بات کررہا ہوں چین کے راشٹرپتی شی جنپنگ کی جنہوں نے اپنی بہت ہی اہم بھارت یاترا احمد آباد سے شروع کی۔ عام طورپر کوئی بھی راشٹرپتی جب بھارت دورہ پر آتا ہے تو وہ سب سے پہلے نئی دہلی آتا ہے پر یہ نریندر مودی کا کرشمہ ہی ہے جس نے دنیا کے سب سے طاقتور دیش کے صدر کو سب سے پہلے احمد آباد آنے کے لئے تیار کرلیا۔بھارت اور چین کے اعلی رہنماؤں میں جس طرح احمد آباد میں جھولا جھولا اس سے ایک دوسرے کے تئیں بھروسہ جتایا ہے۔وہ ایشیا کے ہی لئے نہیں پوری دنیا کیلئے اہم ہے۔جس طرح چین کو بھارت سے تمام امیدیں ہیں اسی طرح بھارت کو بھی اس سے ہیں۔ پردھان منتری نریندر مودی کی شکھر بیٹھک میں پیغام بہت صاف تھا۔ دنیا کے دوسب سے بڑے ترقی پذیر ملکوں کے نیتا آپسی تعلقات میں موجودہ حالات کو بنائے ہوئے نہیں رکھنا چاہتے۔ باجود اس کے کہ جنپنگ کے دورے کے دوران لداخ کے چمار سیکٹر میں پیپلز لبریشن آرمی کے گھس آنے سے تناؤ بنا ہوا ہے دونوں نیتاؤں نے آپسی رشتوں کو مضبوط کرنے پر زور دیا۔ جس دن جنپنگ دہلی آئے تھے اسی وقت لیہہ کے چمار میں چینی فوجی دو کلو میٹر اندر گھس آئے تھے۔ چینی فوجی چمار میں300 کی تعداد میں اور دمچک میں قریب40 چینی فوجی بھارت کی زمین پر موجود تھے۔فوج کے اعلی کمانڈر ہونے کے باوجود ہوسکتا ہے کہ چینی راشٹرپتی کو سرحد پر ہورہے چھوٹے موٹے واقعات کی جانکاری نہ ہو لیکن ان کی فوج کے لوگوں کو تو اپنے راشٹرپتی کے دورہ کی جانکاری یقیناًہی رہی ہوگی۔اس بار تو چینی فوج کے گلے میں باہیں ڈالے اس کے شہری بھی ہمیں آنکھیں دکھاتے صاف چلے آئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ چین اپنے ان دونوں چہروں کے ساتھ بھارت کی نئی سرکار کو ٹٹولنے کی کوشش کررہا ہے۔ اطمینان کی بات ہے کہ اسے ہماری طرف سے سیدھا جواب مل رہا ہے۔ ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے صاف لفظوں میں جنپنگ سے کہا کہ سرحد پر امن کے بغیر وکاس کر تصور کیسا کیا جاسکتا ہے۔ یہ پہلی بار تھا جب بھارت کے کسی وزیر اعظم نے چینی راشٹرپتی کو اتنے کھلے لفظوں میں سرحد پر چل رہی چینی سرگرمیوں کا مدعا اٹھایا ہے۔ اس سے پہلے دو لائنوں کا رسمی بیان آجاتا تھا اور رسم پوری کر لی جاتی تھی۔ شی جنپنگ اور نریندر مودی کی بات چیت کے بعد مشترکہ بیان کی جگہ دونوں نیتاؤں کا اپنا الگ بیان پڑھنا رشتوں میں پیچ کی کہانی بتا رہا تھا۔ نریندر مودی نے مہمان نوازی کا پورا خیال رکھتے ہوئے بے جھجھک دیش کی تمام چنتاؤں کو چینی راشٹرپتی کے سامنے انڈیل کر رکھ دیا۔ سرحد پر مستقل طور سے ہونے والی ایسی اکساؤ حرکتیں کہیں لڑائی والے حالت نہ بنادیں۔ اس پر قابو پانے کے لئے دونوں ملکوں کے بیچ9 سال پہلے باقاعدہ سمجھوتہ ہوا تھا اور اس پر خصوصی نمائندوں کو لگایابھی گیا تھا۔ وقت کے ساتھ چین اس کو بھولتاگیا۔ لداخ کی تازہ گھس پیٹھ اس کی مثال ہے۔ بھارتیہ شہریوں کو نتھی والا ویزا دیکر بھارت کے اقتدار اعلی پر سوال کھڑا کرنے اور برہمپتر جیسی ندیوں سے چھیڑ چھاڑ کر بھارت کے لئے مسئلہ کھڑا کرنے جیسے گمبھیر مدعوں پر فکر جتانے سے بھی مودی نہیں چوکے۔ دراصل دونوں دیشوں کے رشتوں کی راہ میں سرحد سے متعلق معاملہ سب سے بڑا روڑا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ1990 ء کی دہائی سے کئی دور کی بات چیت کے باوجود ایل اے سی کاتعین نہیں ہوسکا۔ مودی نے جب یہ معاملہ اٹھایا تو جنپنگ نے اسے جلدی سلجھانے کا وعدہ کیا۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ باہمی تعلقات اب صرف اسٹریٹیجک ہی نہیں بلکہ معاشی ہتوں کی بنیادپر طے ہوتے ہیں۔ چین فی الحال بھارت میں20 ارب ڈالر کا نویش کرے گا۔شکھر وارتا میں دونوں دیشوں کے درمیان 12 سمجھوتے ہوئے جن میں 5 سال کے فائننشل پلان پر ہوا قرار بیحد اہم ہے۔ کیلاش یاترا کیلئے نیا روٹ، آڈیو ویڈیو میڈیا ، ریلوے کی جدید کاری ، اسپیس، صحت اور ثقافت میں تعاون کولیکر بھی سمجھوتہ ہوا۔ممبئی کو شنگھائی کی طرح وکست کرنے میں چین مدد کرے گا اور گجرات اور مہاراشٹر میں دو انڈسٹریل پاکر بنائے گا۔ ظاہر ہے کہ بھارت کی تیز ترقی اور جدید کاری میں چین کا اہم رول ہوگا۔ بیشک اس کا فائدہ چینی اکانومی کو بھی ملے گا۔ حالانکہ مودی کے جاپان دورہ جس میں انہیں 33 ارب ڈالر کے نویش کا بھروسہ ملا ، کے بعد جنپنگ کے بھارت دورہ کو لیکر قیاس تھے کہ چین سے بھارت کو بھاری بھرکم نویش مل سکتا ہے۔ اس کے برعکس جنپنگ کی موجودگی میں ہوئے سمجھوتوں کے تحت اگلے پانچ سالوں میں بھارت میں صرف20 ارب ڈالر کے نویش کے اعلان سے تھوڑی مایوسی ضرور ہوئی۔
غور کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ چین جہاں بحرہندمیں اپنے مفاد دیکھ رہا ہے وہیں بھارت دکشنی چین ساگرمیں اپنے۔ یہ اتفاق نہیں ہے کہ جنپنگ بھارت آنے سے پہلے سری لنکا سے ہوکر آئے ہیں جہاں انہوں نے بھارتیہ سرحد سے محض200 کلو میٹر دور ایک سمندری پروجیکٹ میں نویش کو منظوری دی تو بھارت کے راشٹرپتی پرنب مکھرجی ویتنام کے ساتھ دکشنی چین ساگر میں تیل کے امکانات تلاشنے کیلئے قرار کر لوٹے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی حلقوں میں اور پاک میڈیاکی نگاہیں جنپنگ کے دورہ پر ٹکی ہوئی تھیں۔ جنپنگ نے اپنا پاکستان دورہ ملتوی کردیا ہے۔ انہیں وہاں بھی جانا تھا۔ یہ بھی بحث کا موضوع بنا ہوا تھا۔ بھارت کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ چین اور پاکستان کے درمیان بہت مضبوط رشتے ہیں۔ چین کے سرکاری میڈیا اور وزارت داخلہ نے صاف کردیا ہے کہ جنپنگ کے پاک دورہ کو آگے بڑھایاگیا ہے اور اس کی تاریخیں پھر سے طے ہوں گی۔ کل ملاکر شی جنپنگ کا بھارت دورہ کامیاب رہا۔ بھارت کے پردھان منتری نے بین الاقوامی ڈپلومیسی میں اپنی پہچان بنا لی ہے۔ نیپال، جاپان، آسٹریلیا، چین اور تھوڑے دنوں میں امریکہ کے دورہ پر جانے والے نریندر مودی اب صحیح معنوں میں ورلڈ لیڈر بن گئے ہیں۔ بیشک چین سے سرحدی مدعوں پر اتفاق رائے نہ ہوئی ہو پر معاشی میدان میں مودی نے کامیابی ضرور پائی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟