بال وواہ آبروریزی سے بھی بدتر لعنت،اس کا سماج سے خاتمہ ضروری!

دیش میں سماجی برائیوں کی فہرست میں بال وواہ ایک بڑی لعنت ہے۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ اس سے نجات پانے کے لئے تمام سرکاری کوششیں فیل ہوگئی ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے تمام قوانین کے چلتے آئے دن بال وواہ کے معاملے اکثر سامنے آتے رہتے ہیں۔ بال وواہ ہو آبروریزی سے بھی بدتر برائی بتاتے ہوئے دہلی کی ایک عدالت نے کہا کہ اسے سماج سے پوری طرح سے ختم کیا جانا چاہئے۔ اس میں کم عمر کی بچیوں کی شادی کرنے کے لئے لڑکی کے والدین کے خلاف معاملہ درج کرنے کوکہا۔ میٹرو پولیٹن مجسٹرین شیوانی چوہان نے لڑکی کے والدین کے ذریعے اس کے شوہر اور سسرال والوں کے خلاف جہیز کے لئے اذیت کے معاملے کی سماعت کے دوران یہ ہدایت دی ہے۔ جہیز دینا اور لینا قانون کے تحت جرم ہے۔ عدالت نے پولیس کو ہدایت دی کہ کم عمری میں شادی کی روک تھام قانون اورج ہیز انسداد قانون کی ضروری شقات کے تحت 14 سالہ لڑکی کے والدین اور اس کے سسرال والوں کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ سسرال والوں کے خلاف گھریلو اذیتوں کا معاملہ پہلے سے ہی درج ہے۔ میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ نے کہا بال وواہ آبروریزی سے بھی بدتر برائی ہے اورا سے سماج سے پوری طرح ختم کیا جانا چاہئے۔ اگر سرکارجیسے فریق کے طور پر اس طرح کے جرم کرنے والوں کے خلاف مناسب کارروائی نہیں کرے گی تو ایسا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ انہوں نے ساؤتھ دہلی پولیس کے ڈپٹی کمشنر کو19 اکتوبر تک کارراوئی رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ عدالت تماشائی بن کر رہنے اور اس برائی کے ہوتے رہنے کے معاملے کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔ عدالت نے لڑکی کے والدین کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بھی سنگین جرم کیا ہے۔ کم عمری میں شادی کے سنگین نتائج ہوتے ہیں۔ یہ بچوں کے تئیں اور کنبے کے ذریعے نہیں بلکہ ان کے اپنے ماں باپ کے ذریعے گھریلو تشدد کو فروغ دینے کی علامت ہے۔ حقیقت میں اس سماجی برائی کا خمیازہ ایک کمسن بچی کو ہی نہیں بلکہ پورے خاندان اور آخر کار سماج کو بھگتنا پڑتا ہے۔ بال وواہ کسی بھی بچی کی زندگی میں ایسا سیاہ پہلو ہے جس کا دیش اور اسے اپنی صحت کی بربادی کی شکل میں زندگی بھر بھگنا ہوتا ہے۔ کم عمر میں ماں کی ذمہ داری نبھانے کے لائق نہ ہونے کے سبب وہ اپنے بچوں کے مستقبل کو ذمہ دارانہ طریقے سے نہیں نبھا سکتی۔ اکثر ایسے شادیاں ناکامیاب رہتی ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ قانونی شقات کے باوجود بنیادی طور سے غربت، ناخواندگی اور جنسی اختلاف کے سبب کی گئی اس برائی سے یونیسیف بھی فکر مند نظر آیا۔ اس کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کم عمر میں ہونے والی شادیاں 40 فیصد اکیلے بھارت میں ہوتی ہیں اور49 فیصد بچوں کی شادی 18 سال سے کم عمرمیں کردی جاتی ہے۔ اس کے مطابق راجستھان، بہار، مدھیہ پردیش، اترپردیش، مغربی بنگال میں تو 82 فیصد بچیوں کی18 سال سے پہلے شادی کردی جاتی ہے۔ یہ مسئلہ اکیلے قانون سے دور ہونے والا نہیں۔ اس میں سماج کی ذہنیت بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!