بروقت اور صحیح مدد ملتی تو مقصود شاید بچ جاتا!

راجدھانی میں واقع چڑیا گھر میں منگل کو ایک انتہائی تکلیف دہ حادثہ ہوا۔ دوپہر قریب1 بجے ایک نوجوان جو چڑیا گھر گھومنے آیا تھا۔ سفید شیر کی تصویر لینے کے لئے اس کے باڑے کی دیوار پر چڑھا اور اندر پھسل گیا اور سوکھی کھائی میں گر گیا۔ 20 سالہ نوجوان مقصود شیر سے بچنے کیلئے قریب10 منٹ تک سفید شیر کے سامنے ہاتھ جوڑ کر امید کرتا رہا کہ شاید وہ بچ جائے اور اسے بچا لیا جائے۔ لیکن جب آس پاس کے لوگوں نے شیر کو اس سے دور کرنے کی کوشش میں پتھر بازی شروع کی تو شیر بگڑ گیا اور مقصود پر حملہ کرکے اس کی گردن پکڑ کر دور لے گیا۔ وہاں اس نے اسے بڑی بے رحمی سے مار ڈالا۔ ایک چشم دید نے سارا سین بیان کرتے ہوئے بتایا ہم سب لوگ چڑیا گھر گھوم رہے تھے۔ تبھی ہم نے دیکھا کہ ایک لڑکا سفید شیر وجے کے باڑے میں جھانک رہا ہے۔ وہ آگے کی طرف بار بار جھک رہا تھا۔ وہاں باڑے کی اونچائی کم تھی اتنے میں وہ لڑکا باڑے کے اندر جا گرا جو نالہ بنا ہوا ہے اس میں پانی نہیں تھا لڑکا اسی میں گرا۔ اتنے میں سفید شیر لڑکے کے پاس آٹپکا۔ لڑکا چپ چاپ بیٹھا رہا اور ہاتھ جوڑ کر معافی مانتا رہا یا اوپر والے سے دعا کرتا رہا کہ اسے بچا لے۔ تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد شیر نے پہلے پنجا مارا پھر دور جاکر کھڑا ہوا لیکن تبھی کسی نے شیر پر پتھر ماردیا۔ اس پر شیر غرایا اور لڑکے کے پاس آکر جھپٹ پڑا۔ اس نے لڑکے کو گردن سے پکڑا اور گھسیٹ کر دور لے گیا۔ اسی درمیان سکیورٹی گارڈ بھی آگئے اور باڑے کی گرل پر ڈنڈے مارنے لگے۔ اس کے بعد شیر لڑکے کو گھسیٹنے لگا جس سے اس کی موت ہوگئی۔ لڑکے کی گردن سے خون بہہ رہا تھا۔ اس کی گردن کی ہڈی بھی دکھائی دے رہی تھی شاید وہ ٹوٹ چکی تھی۔ مقصود کو اگر بروقت مدد ملتی تو شاید اس کی جان بچائی جاسکتی تھی۔ شیر کے باڑے میں گرنے سے لیکر نوجوان کی موت کے درمیان 15 منٹ کا وقت تھا لیکن اسے بچانے کے لئے چڑیا گھر کے انتظامیہ کی طرف سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔چڑیا گھر انتظامیہ شیر کو بیہوش کرنے کے ٹریکولائزر بندوق کا استعمال کرتا تو مقصود بچ جاتا۔ یہ بندوق موقعے کے قریب250 میٹر دور چڑیا گھر کے ہسپتال میں رکھی تھی لیکن اسے استعمال نہیں کیا۔ قاعدے کے مطابق خطرناک جانوروں کے باڑے کے پاس ٹریکولائزر( بے ہوش کرنے والی) بندوق کے ساتھ تین ملازم کی تعیناتی ہونی چاہئے۔ وہ تب تک تعینات رہیں گے جب تک چڑیا گھر عام جنتا کے لئے کھلا رہتا ہے۔ لیکن واقعے کے وقت کوئی بھی کرمچاری وہاں موجود نہیں تھا۔ ایک شیر ماہر کا کہنا ہے کہ شیر نے تو اس نوجوان کو چھوڑدیا تھا مگر لوگ پتھر نہ پھینکتے تو وہ بچ جاتا۔رنتھمبور فاؤنڈیشن کے ماہر پی ۔ کے سین نے بتایا کہ جنگل میں رہنے والے شیروں میں ضرور لوگوں کو مارنے یا شکار کرنے کی عادت ہوتی ہے لیکن وجے یہیں پیدا ہوا تھا اور اسی ماحول میں پلا بڑھا ہے،اس میں عام لوگوں کو مارنے کی نیت نہیں ہوسکتی۔ 
مقصود جب باڑے میں گرا تو شیر اس کے پاس آیا اور اس کو چاٹ کر چھوڑدیا اور مڑ کر جانے لگا تبھی لوگوں نے پتھر مارنے شروع کئے اور وہ غصے میں آگیا۔ ایسے میں خطرہ بھانپ کر اس نے نوجوان پر ہی حملہ کردیا۔کہیں نہ کہیں اس میں غلطی ان لوگوں کی بھی جنہوں نے شیر کو پتھر مارے۔ چڑیا گھر میں رہنے والے شیرعام طور پر غصے والے نہیں ہوتے تبھی تو دیش بھر میں کسی چڑیا گھر میں اس طرح کا حادثہ پہلے نہیں ہوا۔ مارا گیا لڑکا دہلی کے آنند پربت علاقے کا رہنے والا تھا اور وہ12 ویں کلاس کا طالبعلم تھا۔ چڑیا گھر کیوریٹر ریاض احمد خاں نے بتایا کہ سفید شیر کو دیکھنے کے لئے روزانہ ہزاروں لوگ چڑیا گھر آتے ہیں اور اطلاعاتی بورڈ پر صاف صاف لکھا ہے کوئی بھی سیاح جانوروں کو کسی طرح سے پریشان نہ کرے، خطرناک جانوروں سے ضروری دوری بنائے رکھیں، سفید شیر کو قید کرنے کیلئے چڑیا گھر انتظامیہ نے لوہے کی اونچی جال دار دیوار بنائی ہوئی ہے لیکن مقصود بے چارے کی موت آئی تھی اس لئے وہ دیوار پر چڑھا اور فوٹو کھینچنے کے چکر میں سفید شیر وجے کے باڑے میں جاگرا اور موت کا شکار ہوگیا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟