خود کو نابالغ بتا کر ہندوستانی قوانین کا فائدہ اٹھائیں!

ہندوستان کے خلاف کئی دہشت گردانہ حملوں کو انجام دینے والے پاکستانی آتنک وادی تنظیم لشکر طیبہ نے اب نئی حکمت عملی اپنائی ہے۔ وہ ہمارے لئے تشویش کا باعث ہونا چاہئے۔ بے قصوروں اور معصوموں کی بے رحمی سے جان لینے والے اپنے لڑاکو کو بچانے کے لئے وہ ہمارے ہی قوانین کو ہمارے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہے۔ لشکر طیبہ نے جموں و کشمیر میں موجودہ اپنے لڑاکو سے کہا ہے کہ اگر وہ ہندوستانی سکیورٹی جوانوں کے ذریعے پکڑے جائیں تو وہ اپنی عمر 18 سال سے کم بتائیں جس سے انہیں کم سے کم سزا بھگتنی پڑے۔ لشکر کی اس نئی حکمت عملی کاانکشاف گرفتار دہشت گرد محمد جاوید نوید جٹ عرف ابوحمزہ نے کیا۔ جٹ سے پوچھ تاچھ کے دوران مسلسل اپنی عمر17 سال ہی بتاتا رہا لیکن جانچ میں اس کی عمر22 سال نکلی۔ پاکستان کے ملتان کے باشندے جٹ کو پولیس نے ساؤتھ کشمیر میں پچھلے مہینے کے تیسرے ہفتے میں گرفتار کیا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ اکتوبر2012ء میں 6 لڑکوں کے ساتھ شمالی کشمیر کے کیرن سیکٹر سے جموں وکشمیر آیاتھا۔ فوج کے ریٹائرڈ ڈرائیور کے بیٹے جٹ کو لشکر کی سسٹر تنظیم جماعت الدعوی کے کئی مدرسوں میں ٹریننگ دی گئی تھی۔ جٹ پر ساؤتھ کشمیر میں کئی پولیس ملازمین کے قتل ،فوج اور پولیس فورس پر حملہ ،نیشنل کانفرنس ودھان پریشد کے ممبر کے قتل کی کوشش کا الزام ہے۔ پوچھ تاچھ میں جٹ نے بتایا کہ سرحد پار بیٹھے لشکر کے آقاؤں نے اسے اپنی عمر17 سال بتانے کوکہا تھا۔ لشکر نے اپنے آتنک وادیوں سے کہا تھا کہ وہ 18 سال سے کم عمر کے لڑکوں کی طرح برتاؤ کریں تاکہ ان کے خلاف ہندوستانی جرائم قانون کے تحت نہیں بلکہ جوئینائل ایکٹ کے تحت معاملہ درج ہو۔ ہندوستان میں لڑکوں کے انصاف قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ سزاتین سال ہے۔ حالانکہ نابالغ بچوں سے قانون کتنی سختی سے نمٹے ایک کے بعد پھر یہ معاملہ سرخیوں میں ہے۔ اس بار اطفال اور خواتین معاملوں کی وزیر مینکا گاندھی نے اس حساس اشو کو نہ صرف اٹھایا ہے بلکہ ان کی وزارت اس سے جڑے قانون پر زور دار طریقے پر تبدیلی میں لگ گئی ہے۔ قومی ریکارڈ بیورو کے اعدادو شمار بتاتے ہیں پچھلی ایک دہائی میں نابالغ جرائم پیشہ کے ہاتھوں جاری جرائم کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ سال2003ء سے 2010ء کی میعاد میں ایسے نام نہاد معصوم جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں کی گئی قتل کی وارداتیں 465 سے بڑھ کر 1007 یعنی اس میں 117 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی میعاد میں ان کے ذریعے انجام دئے جانے والے آبروریزی کے واقعات چھلانگ لگا کر1884 ہو گئے ہیں یعنی 304 فیصد اضافہ۔ اعدادو شمار صاف بتاتے ہیں محض کم عمری کا خیال کر سنگین جرائم میں رعایت برتنا اب سماج کے لئے ایک برا خواب بنتا جارہا ہے۔16 دسمبر 2012 ء کو دہلی میں نربھیہ کے ساتھ اجتماعی آبروریزی میں سب سے زیادہ حیوانیت دکھانے والا ایک نابالغ جرائم پیشہ لڑکے کو محض3 سال کے لئے جونائل ہوم میں بھیجنے کے لئے زیادہ سزا نہیں دے پایا تھا جبکہ دیگر بالغ ساتھیوں کو عدالت نے موت کی سزا سنا دی تھی۔ اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہوئی کہ اس جرائم کے محض چھ مہینے بعد یہ نابالغ آبروریز18 سال پورے کر بالغوں کے زمرے میں آگیا۔ نربھیہ کے ساتھ ہوئی ٹریجڈی سے ٹوٹ چکے اس کے والدین نے سپریم کورٹ سے اس نابالغ کو بھی بالغ کے زمرے میں رکھ کر سخت سزا کی اپیل کی تھی۔ وہ بھی مسترد کردی گئی۔ اب جب دیش کے دشمن بھی اسی کمی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں تو کیا یہ ضروری نہیں بنتا کہ بالغوں سے وابستہ قانون میں ایسی ضروری تبدیلیاں کی جائیں جو ان نابالغ لڑکوں کے دل میں قانون کا خوف پیدا کرسکے۔ انہیں ایسے جرائم سے دور رکھنے میں معاون ہو۔ قابل ذکر ہے امریکہ، برطانیہ، کینیڈا جیسے ترقی پذیر ملکوں میں سنگین جرائم کے معاملوں میں نابالغ کے ساتھ کوئی خصوصی رعایت نہیں برتی جاتی۔ اپنے دیش میں بہت سے ایسے معاملے دیکھے گئے ہیں جن میں نابالغ جرائم پیشہ کو قانون کی اس کمزوری کا پتہ ہوتا ہے اور وہ جم کر اس کا بیجا استعمال کرتا ہے اب تو لشکر طیبہ بھی اس کا فائدہ اٹھانے کے چکر میں ہے۔اس لئے بہتر ہوگا کہ ایسے جرائم پیشہ لڑکوں کے لئے 16 سے18 برس کا ایک گروپ بنا دیا جائے اور جرائم کی نوعیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے سزا دی جائے۔ ویسے بھی جب نابالغ ایسے سنگین جرائم کرتے ہیں تو (نربھیہ کیس) تو وہ کہاں کا نابالغ رہ گیا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟