سماج میں بڑھتی نشے کی لت تشویش کا موضوع!

سماج میں نشے کی بڑھتی لت کو خطرناک مانتے ہوئے صدر پرنب مکھرجی نے نشے کے عادی لوگوں کو نشے سے نجات دلانے کی اپیل کے ساتھ انہیں سماج کیلئے کارگر بنانے پر زور دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک اعدادو شمار کے مطابق دنیا بھر میں قریب200 ملین لوگ منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔شراب سے لیکرکوکین، ہیروئن اور ناجانے کس کس طرح کی نشیلی چیزوں سے آج کی نوجوان پیڑھی تباہ ہورہی ہے۔ حقیقت میں نشیلی چیزوں کا استعمال اور ان کا غیر قانونی کاروبار ہندوستان کے لئے ایک بڑی مصیبت بن گیا ہے۔ ہم اپنے دیش کی بات کرتے ہیں۔ پنجاب میں نشیلی چیزوں کے ناجائز دھندے نے کہاں تک اپنی جڑیں جما لی ہیں اس کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ جن لوگوں پر اسے روکنے کی ذمہ داری ہے وہ بھی اس کی گرفت میں دکھائی پڑتے ہیں۔ مکتیشور پولیس کے چار جوانوں کا ڈیوٹی پر نشیلی چیزوں کا استعمال کرتے پکڑے جانا اور نشہ چھڑاؤ مرکز میں بھیجا جاتا اس کی تازہ مثال ہے۔ یوں تو ان کے پکڑے جانے سے پولیس محکمے کی پریشانی بھی ظاہر ہوتی ہے مگر ریاست میں نوجوانوں نے جس طرح نشیلی چیزوں کی سپلائی بڑھتی جارہی ہے اس پر روک لگانے کی سمت میں کوئی کارگر قدم ابھی تک نہیں اٹھایا جاسکا۔ مسئلہ اور بھی سنگین ہوجاتا ہے جب نشیلی چیزوں کی اسمگلنگ اور فروخت میں پولیس کانسٹیبل کی بھی ملی بھگت ہو۔دیش میں اس وقت افیم ،چرس، اسمیک، کوکن، وغیرہ کی پہچان سے بچنے کیلئے کچھ اسمگلروں نے دوا کی گولیوں کی شکل میں نشیلی گولیاں تیار کرنا شروع کردیں جنہیں سنتھیٹک ڈرکس کی شکل میں جانا جاتا ہے۔ دہلی میں کئی ریوا پارٹیوں میں ایسی گولیوں کے استعمال کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ایسی گولیوں کوتیارکرنے میں اور ان کی سپلائی کا نیٹورک پھیلانے کا قصووار پنجاب پولیس کا ہی ایک افسر پایا گیا ہے۔ نشے کا ٹرینڈ کیونکہ انسان کی بنیادی عادتوں کا حصہ ہے اس لئے امیر سے لیکر غریب طبقے تک سماج کا بڑا حصہ اس کا عادی ہوتا ہے۔ بے ترتیب اور بے حساب آبادی والے بھارت جیسے ملک میں نشیلی چیزوں کا کاروبار اس کی معیشت کو گھن کی طرح کھوکھلا جارہا ہے ۔وہاں کے غریب طبقے کو خاصطور پر جرائم کی دنیا میں جھونکتا جارہا ہے۔ نشہ خوری کے سبب سماج میں جہاں جنسی جرائم میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے وہیں گھر پریوار کے جھگڑے بھی ایک بڑا سبب ثابت ہورہے ہیں۔ گھر اور کنبے کی سطح پر نشے کے عادی تمام لوگوں کے گھر اور کنبے بربادی کے دہانے پر آجاتے ہیں۔ ایسے کئی لوگ اپنے بچوں تک کی فکر مندی سے بے پرواہ ہوجاتے ہیں۔ عورتوں کے تئیں ہورہے جنسی جرائم کے زیادہ تر معاملوں میں نشیلی چیزوں کا استعمال ایک بڑا سبب مانا جاتا ہے۔ جس ناجائز کاروبار کے چلتے دیش کے لاکھوں نوجوان نشے کے عادی ہوں ان میں ہر سال ہزاروں غیر فطری موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس پر نکیل کسنے میں مرکز اور ریاستی حکومتوں کی لاپرواہی حیرانی ضرور ظاہر کرتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟