انتہائی چیلنج بھرے سیاسی دور سے گزرتی کانگریس !
اس کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ سب سے پرانی کانگریس پارٹی آج کل ایک خراب سیاسی دور سے گزر رہی ہے۔ چاہے معاملہ لوک سبھا میں لیڈر آف اپوزیشن کا ہو، لوک سبھا میں سیٹنگ کا ہو یا اتحادی ساتھیوں کا ہو۔ پارٹی کے اندر بڑھتی ناراضگی کا ہو۔ سبھی مورچوں پر کانگریس لیڈر شپ کو زبردست چیلنج کا سامناکرنا پڑ رہا ہے۔ لوک سبھا اسپیکر محترمہ سمترا مہاجن کے ذریعے نئی ایوان میں سیٹوں کے انتظام کو قطعی شکل دئے جانے کا امکان ہے۔ حالانکہ ابھی یہ طے نہیں کہ ایوان میں اپوزیشن کا لیڈر کے اشو پر فیصلہ کب تک ہوگا۔ پارلیمانی ذرائع نے بتایا کہ لوک سبھا اسپیکرکو ایک پیچیدہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ انا ڈی ایم کے اور ترنمول کانگریس اور بیجو جنتادل کانگریس کے ساتھ ساتھ لوک سبھا میں بیٹھنے کو تیار نہیں۔ نہ تو انا ڈی ایم کے اور نہ ہی ترنمول اور بیجو جنتا دل کوئی بھی لوک سبھا میں کانگریس کے ساتھ سیٹ دئے جانے کے حق میں نہیں ہے۔ متعلقہ افسران نے اس بارے میں ان سے کئی دور کی بات چیت کی ہے اور اس مسئلے پر ہفتے بھر میں فیصلہ آنے کی امید ہے۔ سیاسی مشاہدین کا کہنا ہے کہ اڑیسہ میں کانگریس بیجو جنتادل کی خاص حریف جبکہ ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس کئی بار حکومت کی حمایت میں دکھائی پڑتی ہے تو کئی بار مخالفت میں نظر آتی ہے۔ایسا بھی تذکرہ چل رہا ہے کوئی ایسا فارمولہ نکال لیا جائے جس کے تحت جیتی گئی سیٹوں کے تناسب کے حساب سے پارٹیوں کو آگے کی سیٹیں الاٹ ہوجائیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو کانگریس اگلی لائن میں دو سے زیادہ سیٹیں نہیں پا سکتی۔ اب بات کرتے ہیں کانگریس اتحاد کے ساتھیوں کی۔ اکتوبر ۔نومبر میں ہریانہ ، مہاراشٹر، جموں و کشمیر میں اسمبلی چناؤ ہونے ہیں۔ قریب چھ سال تک اتحاد میں رہنے کے بعد جموں و کشمیر میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس اسمبلی چناؤ میں الگ الگ میدان میں اتریں گے۔ یعنی دونوں کا اتحاد ختم ہوگیا ہے۔کانگریس لیڈروں غلام نبی آزاد، امبیکا سونی نے جموں میں اعلان کیاتھا کہ ان کی پارٹی آنے والے اسمبلی چناؤ اکیلے ہی لڑے گی اور چناؤ سے پہلے کوئی اتحاد نہیں ہوگا۔ ادھرنیشنل کانفرنس کے وزیراعلی عمر عبداللہ جو پارٹی کے نگراں صدر بھی ہیں، نے سوشل میڈیا پر ٹوئٹ کیا اور کہا کہ انہوں نے 10 دن پہلے ہی کانگریس پردھان سونیا گاندھی کو اس بارے میں مطلع کردیا تھا کہ ریاست میں چناؤ سے پہلے کوئی تال میل نہیں ہوگا۔ کانگریس کا یہ کہنا کہ اس نے فیصلہ کیا ہے اور پوری طرح سے حقائق کے ساتھ چھیڑ چھاڑ غیرضروری ہے۔ مہاراشٹرمیں کانگریس اور این سی پی کے درمیان کافی پرانا اتحاد ہے۔ یہاں پر اتحادی حکومت کے وزیر اعلی پرتھوی راج چوہان ہیں لیکن این سی پی کے چیف شرد پوار اپنی سیاسی چالیں چلنے سے باز نہیں آرہے۔ ان کا کہنا ہے چناؤ سے پہلے کانگریس پرتھوی راج چوہان کو ہٹا کر کسی اور کو وزیر اعلی بنائے کیونکہ چوہان کی لیڈر شپ میں ریاست میں بھاجپا۔ شیو سینا کی سیاست سے نمٹنا بہت مشکل ہوگا۔ اب کانگریس نے ایک سیاسی چال چلتے ہوئے این سی پی کے پاس ایک تجویز بھیجی ہے کہ اگر پارٹی کانگریس میں ضم ہونے کو تیار ہو تو شرد پوار جسے چاہیں اسی کو وزیر اعلی بنا دیا جائے گا۔ قابل ذکر ہے پچھلے کئی برسوں سے کانگریس لیڈر شپ اس کوشش میں رہی ہے کہ این سی پی کا انضمام کانگریس میں ہوجائے۔ خیال رہے کہ سونیا گاندھی کے غیر ملکی ہونے کے اشو کو اٹھاتے ہوئے شرد پوار نے کانگریس سے بغاوت کرکے اپنی پارٹی این سی پی بنا لی تھی۔ پچھلے15 سالوں سے مہاراشٹر میں اتحاد کی سرکار چل رہی ہے لیکن ہر بار چناؤ کے موقعے پر دونوں پارٹیوں کے بیچ سیٹوں کے بٹوارے کو لیکر کھینچ تان شروع ہوجاتی ہے۔ قیاس آرائیاں لگنے لگتی ہیں کہ دونوں پارٹیوں کے بیچ چناوی اتحاد بچے گا یا ٹوٹے گا۔ این سی پی نے انضمام سے صاف انکار کردیا ہے۔ کل ملا کر کانگریس پارٹی ایک بہت چیلنج بھرے دور سے گزر رہی ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس لیڈر شپ پارٹی کو اس سے نکال سکتی ہے یا نہیں؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں