ملائم، اکھلیش کو نصیحتیں دے رہے ہیں یا ان کی مشکلیں بڑھا رہے ہیں؟

شری ملائم سنگھ یادو اس وقت دوہرا رول نبھا رہے ہیں۔ ادھر لوک سبھا میں قومی سیاست کررہے ہیں تو ادھر اترپردیش میں اپنی پکڑ رکھے ہوئے ہیں لیکن سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ نیتا جی اپنے وزیر اعلی صاحبزادے اکھلیش یادو کی مدد کررہے ہیں یا پھر روڑے اٹکا رہے ہیں؟ گاہے بگاہے اپنے بیانوں سے ملائم سنگھ اکھلیش کو پریشانی میں ڈال دیتے ہیں۔ ایک طرف آبروریزی کے معاملوں میں اترپردیش میں سماج وادی پارٹی حکومت نکتہ چینیوں کا سامنا کررہی ہے تو وہیں پارٹی چیف ملائم سنگھ نے اپنے اس بیان میں کہا کہ 21 کروڑ کی آبادی کے باوجود ریاست میں آبروریزی کے کم معاملے ہوئے ہیں۔ اکھلیش سرکارکے لئے یہ درد سر بڑھا دیا ہے۔ لکھنؤ کے موہن لال گنج علاقے میں ایک خاتون سے آبروریزی اور قتل پر یادو نے دہلی میں اخبار نویسوں کے سوالوں کے جواب میں کہا کہ آپ اترپردیش کی بات کرتے ہیں وہاں کی آبادی 21 کروڑ ہے ۔ اگرکسی دیش میں اس طرح کے سب سے کم معاملے ہوئے ہیں تو وہ اترپردیش ہے۔16 ویں لوک سبھا کے چناؤ کے دوران مظفر نگر میں ملائم سنگھ نے ممبئی میں ہوئے بدتمیزی کے الزامات پر کہا کہ ’’بچوں سے غلطیاں ہوجاتی ہیں‘‘ جیسے بیان دے کر پردیش کی عورتوں کو ناراض کردیا تھا۔ پارٹی کے ایک بڑے طبقے نے مانا کہ نیتا جی کے اس بیان کا غلط اثر لوک سبھا کے چناؤمیں عورتوں کی ناراضگی کی شکل میں سپا کو بھگتنا پڑا تھا۔ لوک سبھا چناؤ میں سپا کومحض پانچ سیٹیں ملی تھیں۔ پورے لوک سبھا چناؤ میں نیتا جی نے کئی ریلیوں میں یہ کہہ کر اقلیتوں کو خوش کرنے کی کوشش کی تھی دیش کی ترقی میں کسانوں، مسلمانوں نے اہم کردار نبھایا ہے۔ سیاسی واقف کاروں کا خیال ہے کہ نیتا جی کے اس بیان نے فرقہ وارانہ پولارائزیشن کا خاکہ تیار کیا تھا اور فائدہ بھاجپا اٹھا لے گئی۔ اس سے پہلے عام چناؤ میں وزیر اعلی کی سرکاری رہائش گاہ پر وزیر اعلی کو اپنے چاٹو کارو سے گھرا بتا کر ان کی مشکلیں بڑھا دی تھیں۔ آج بھی اپوزیشن لیڈر نیتا جی کے اس بیان کو بنیاد بنا کر وقتاً فوقتاً اکھلیش اور ان کی سرکارپر نکتہ چینی سے گریز نہیں کرتی۔ بیان سے پہلے اٹاوا میں ملائم پردیش میں اکھلیش سرکار کے خلاف یہ کہہ کر برسے تھے کہ سرکار کے کام کاج سے وہ مطمئن نہیں ہیں۔ اپوزیشن نے ان کے اس بیان کو یہ کہہ کر تشریح کی کہ جب سپا چیف ہی اپنی سرکار کے کام کاج سے مطمئن نہیں ہیں تو ریاست کے باشندوں کی بات توچھوڑیئے۔ پچھلے دنوں لکھنؤ کے موہن لال گنج علاقے میں عورت کے ساتھ بدفعلی کے بعد جس طرح ملائم سنگھ نے بیان دیا وہ جرائم پیشہ افراد کا درپردہ طور پر حوصلہ بڑھاتا ہے۔ ملائم فرماتے ہیں کہ پردیش کی آبادی 21 کروڑ ہے اور اسے دیکھتے ہوئے جرائم کی تعداد بہت کم ہے۔ یہ ہی نہیں وہ آگے کہتے ہیں ہر آدمی کے پیچھے پولیس تو نہیں لگائی جاسکتی۔ ہر جرائم کو روکا نہیں جاسکتا۔ یہ بات سچ ہے کہ ہر شخص کے پیچھے پولیس نہیں لگائی جاسکتی مگرراج پولیس اور قانون کا ہوتا ہے۔جب تک غلط کام کرنے والے دل میں قانون کا خوف پیدا نہیں ہوگا تب تک جرائم نہیں رکیں گے۔ اس لئے قانون پر سختی سے تعمیل کرکے ہی قانون کا راج قائم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہاں تو حالات الٹے ہیں پولیس تھانوں میں ہی جرائم ہورہے ہیں۔ ملائم نے اپریل ماہ میں اپنی ایک چناؤ ریلی میں کہا تھا آبروریزی کے لئے پھانسی کی سزا صحیح نہیں ہے۔ لڑکے ہیں غلطی تو ہوہی جاتی ہے تو کیا اس کے لئے ان کی جان لیں گے؟ ملائم کے بیانوں کے سبب بھاجپا اور کانگریس ، بسپا ان پر حملہ آور کے موڈ میں ہیں۔ ان تینوں سیاسی پارٹیوں نے نیتا جی کے بیان کو اکھلیش سرکار کے ارادے سے جوڑ کر باپ بیٹے کو گھیرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟