آتنک وادیوں کے نشانے پر شیو بھکت!

امرناتھ یاترا کی بیس کیمپ بال تال کیمپ پر جمعہ کو ہوئے جھگڑے میں 65 لوگ زخمی ہوگئے۔300 سے زائد ٹینکوں کو جلا دیا گیا اور امرناتھ یاترا کو روک دیا گیا۔ بال تال میں اجتماعی لنگر میں آگ اورجھگڑوں میں لوگ زخمی ہوگئے۔ جلی ہوئے ٹینٹ و لنگر کا سامان بکھرا ہوا اور چاروں طرف راکھ کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔اس سے تباہی میں لوگ اپنے سامان کو تلاش رہے ہیں۔ سبھی لوگوں کے چہرے پر ڈر اور مایوسی اپنی کہانی سنا رہی تھی۔ ایسا نظارہ تھا کہ مانو نادرشاہ کی فوج کا قہر یہاں سے گزر گیا ہو۔ سنیچر کو بال تال کہیں سے بھی برفانی بابا کی پوتر گپھا کی طرف جانے والے شردھالوؤں کا بڑا بیس کیمپ نظر نہیںآرہا تھا۔بھیوانی کے ایک باشندے ارون کمار کا کہنا تھا کہ بھائی صاحب یہ بھگوان شنکر کی کرپا ہے اور فوج کی ہمت ہے جو ہم لوگ بچ گئے ہیں۔ میں تو اپنے کنبے کے لوگوں کو بھی گنوا چکا تھا لیکن فوجیوں نے ان کا بھی پتہ لگا لیا اور ہم سبھی کو یہاں اپنے کیمپ میں جگہ دی۔ ارون کمار کا کہنا ہے ہم لوگ تو پوتر گپھا کی طرف جانے کی دھنمیں مصروف تھے لیکن پتہ نہیں کہاں سے لوگوں کا ہجوم آگیا اور نعرے لگاتے ہوئے ان لوگوں نے ہمارے ساتھ مار پیٹ شروع کردی۔ لنگروں میں گھس گئے، ٹینٹوں میں سوئے ہوئے لوگوں کو اٹھا کر پیٹنے لگے۔ ہم سبھی جان بچا کر بھاگے۔ ہمیں فوج کے جوانوں نے وہاں سے نکالا اور اپنے کیمپوں میں لے گئے۔ یہ تشفی کی بات ہے کہ بال تال میں تشدد کے بعد روکی گئی امرناتھ یاترا پھر سے شروع ہوگئی۔ شردھالو ہر ہر مہا دیو اور اوم نم شوائے کے نعرے لگاتے ہوئے آگے کی یاترا کے لئے روانہ ہوئے۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ تشد دآخر بھڑکا کیوں؟ یہ سبھی جانتے ہیں کہ ہر برس امرناتھ یاترا کو روکنے اور اس میں خلل ڈالنے کیلئے کچھ لوگ ایسی حرکتیں کرنے کی فراق میں رہتے ہیں۔ اس تشدد کے احتجاج میں جس طرح دیش کے دوسرے حصوں ،خاص طور سے پنجاب اور جموں و کشمیر میں جھگڑا پھیلا وہ تشویش ناک ہے۔ امرناتھ یاتریوں کی سلامتی کیلئے خصوصی انتظام کئے جاتے لیکن پھر بھی ہر برس کچھ نہ کچھ نا خوشگوار واقعہ رونما ہو جاتا ہے کیونکہ امرناتھ یاترا ایک مشکل یاترا ہے اس لئے بھی یاتریوں کے سامنے بہت سی رکاوٹیں کھڑی رہتی ہیں۔ بال تال میں جس طرح بڑے پیمانے پر تشدد ہوا اس سے لگتا ہے اس کے لئے پوری تیاری کی گئی تھی لیکن یہ ابھی صاف نہیں ہے کہ یہ کس معاملے کے چلتے تشدد بھڑکا، اس کے لئے کون ذمہ داری ہے۔ اس لئے یہ ضرور پتہ لگایا جانا چاہئے آخر اس یاترامیں خلل ڈالنے والے عناصر کون ہیں؟ جس طرح سے شیو بھکتو کو نشانے پر لیا جاتا ہے وہ اچھا اشارہ نہیں ہے۔ تکلیف کی بات یہ ہے نہ تو جموں و کشمیر کی سرکار ضرورت کے حساب سے سکیورٹی قدم اٹھانا چاہتی ہیں اور نہ مقامی لوگ یاتریوں کے تئیں ہمدردی رکھتے ہیں۔ یہ تو تب ہے جب ان کی روٹی روزی امرناتھ یاترا سے ہی چلتی ہے۔ہمیں تو ڈر اس بات کا لگتا ہے کہ دیش بھر میں چل رہی کانوڑ یاترا کو بھی آتنک وادی فرقہ وارانہ بھائی چارہ بگاڑنے کے لئے حملہ کرسکتے ہیں۔ وزارت داخلہ کے ذرائع نے بتایا ویسے تو ہمیشہ کانوڑ یاترا کے دوران احتیاطی قدم اٹھائے جاتے ہیں لیکن پچھلے دنوں مغربی اترپردیش میں فرقہ وارانہ تشددکی وجہ سے اس بات کے حالات تھوڑا مختلف ہیں۔ خفیہ ایجنسیوں کو ایسی جانکاری ملی ہے کہ کانوڑ میں گڑ بڑی پھیلائی جاسکتی ہے۔ صاف ہے نارتھ انڈیا میں شیو بھکت آتنک وادیوں کے نشانے پر ہیں۔ وزارت داخلہ کو شیو بھکتوں کی حفاظت کا پختہ انتظام کرنا چاہئے۔جموں و کشمیر کی حکومت کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ نہ صرف وہ یہ پتہ لگائے کہ شرارتی عناصر کون ہیں بلکہ ان کے خلاف سخت کارروائی بھی کریں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!