آج چھٹا مرحلہ: داؤ پر 117 سیٹیں اور راہل ، مودی و ملائم کا مستقبل!
پانچویں مرحلے کی طرح چھٹے مرحلے میں بھی راہل گاندھی اور نریندر مودی کے بیچ سخت مقابلہ ہے۔آج 24 اپریل کو ہونے والے چناؤ میں117 سیٹیں داؤ پر لگی ہیں۔ ان میں زیادہ تر ان ریاستوں میں ہیں جہاں کانگریس اور بھاجپا کے درمیان سیدھا مقابلہ ہے۔پچھلے مرحلے کی طرح یہ مرحلہ بھی مستقبل کی سیاست کے لحاظ سے بیحد اہم ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ اس مرحلے میں بھی حملے اور تلخ ہوگئے ہیں۔ چھٹے مرحلے کی اہمیت کی بات کریں تو اس میں اترپردیش (10) سیٹیں مہاراشٹر (19)، مدھیہ پردیش (10)، بہار(7)، چھتیس گڑھ(6)، راجستھان (5)، جھارکھنڈ میں(4) شامل ہیں، میں کانگریس اور بھاجپا کا سیدھا مقابلہ ہے۔پہلے بات کرتے ہیں اترپردیش کی کچھ سیٹوں کی۔ آگرہ میں 2 لوک سبھا سیٹیں ہیں جن میں سے فتحپور سیکری جو ان دنوں ہاٹ سیٹ بنی ہوئی ہے، اس پر سپا نے مرکزی وزیر کی بیوی کو بسپا نے سابق وزیر توانائی کی بیوی کو، بھاجپا نے سابق وزیر کو اور آر ایل ڈی نے راجیہ سبھا ایم پی امرسنگھ پر داؤ لگایا ہے۔فلمی ستاروں کی کمپین میں شامل ہونے سے یہ سیٹ کافی بحث کا موضوع بن گئی ہے۔ان دنوں تاج نگری پہنچے ملائم سنگھ یادو کو بھی کہنا پڑا کہ ستاروں کا غلط استعمال کیا جارہا ہے جن پر پلٹ حملہ کرتے ہوئے امرسنگھ نے کہا سپا چیف کے ذریعے فلمی ستاروں کی بے عزتی کی جارہی ہے۔ستارے روپے لیکر نہیں ذاتی تعلقات کے لئے ان کی کمپین کررہے ہیں۔اسمبلی میں سیٹوں کی تعداد پر نظر ڈالیں تو فتحپور سیکری سیٹ پر جاٹ، ٹھاکر و دلت ووٹروں کا پولارائزیشن طے ہے۔ اب تک اس سیٹ پر پسماندہ طبقہ فیصلہ کن رول نبھاتا رہاہے۔ مقابلہ کانٹے کا ہے۔ متھرا پارلیمانی حلقے میں سخت مقابلے کا سامنا کررہے موجودہ ایم پی جے انت چودھری نے قبول کیا ہے کہ ان کی حریف و گزرے زمانے کی بالی ووڈ اداکارہ ڈریم گرل ہیما مالنی کا گلیمر لوگوں اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ راشٹریہ لوک دل کے لیڈر اور پارٹی کے چیف اجی سنگھ بے اپنے اہم حریف بھاجپا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سنجیدہ سیاست کو سنجیدہ لوگوں کی ضرورت ہے نہ کے چہروں کی۔یہ آسان نہیں ہے کہ کسی فلم میں رول نبھانے جیسا نہیں ہے۔ آپ کو اپنا دل کھولنا ہوتا ہے اور اپنے لوگوں کے درمیان رہنا ہوتا ہے۔ متھرا کے 7 لاکھ ووٹر اور2300 گاؤں ہیں۔ ہیما جے انت چودھری کو کتنا چیلنج دے سکتی ہیں یہ پتہ چل جائے گا۔ اترپردیش کی سنبھل، مین پوری، ایٹہ، ہاتھرس، آگرہ، فیروز آباد، ہرودئی، فروخ آباد، ایٹاوا، قنوج و اکبر پور میں بھاجپا کو سخت محنت کرنی پڑ رہی ہے۔ یہ سپا اور بسپا کا گڑھ ہے۔ نریندر مودی فیکٹر کتنا اثر دکھا پائے گا دیکھنا ہوگا۔مودی کا مشن272+ کے لئے ان سیٹوں پر جیتنا ضروری ہے۔ لوک سبھا چناؤ کو لیکر راجستھان میں لڑائی اب محض پانچ سیٹوں پر سمٹ گئی ہے۔ حال ہی میں ان میں سے ایک بھی سیٹ پر بھاجپا کا ایم پی نہیں ہے۔ وہیں کانگریس کو یہاں سے چار ایم پی ملے ہوئے ہیں اور ایک سیٹ پر آزاد ایم پی کروڑی لال مینا تھے لیکن اب وہ اسمبلی چناؤ میں جیت کر پارلیمانی سیٹ خا لی کرچکے ہیں۔ کانگریس اپنے اثر والی سیٹوں کو قبضے میں رکھنے کے لئے جوڑ توڑ کی کوشش میں لگی ہے تو بھاجپا ان سبھی سیٹوں کو اپنی جھولی میں ڈالنا چاہ رہی ہے۔ سوائے مادھوپور، الو ر،بھرتپور، پھولپور، کرولی سیٹیں کانگریس کے قبضے میں ہیں۔ وزیر اعلی وسندھرا راجے دعوی کررہی ہیں کہ بھاجپا راجستھان کی ساری سیٹیں جیتے گی۔ ان 25 سیٹوں میں یہ پانچ سیٹیں بھی شامل ہیں۔ انہیں اپنے کام و مودی لہر پر پورابھروسہ ہے۔ مدھیہ پردیش کے ودھیشا سیٹ پر بھاجپا کی سرکردہ لیڈر سشما سوراج کی راہ اس بار آسان نہیں ہے۔ یہ چناؤ سشما کے لئے واک اوور نہیں لگتا۔ مقابلہ دگوجے سنگھ کے بھائی لکشمن سنگھ کے ساتھ ہے جو پڑوس کی راج گڑھ سیٹ سے پانچ بار ایم پی رہ چکے ہیں۔ سشما اپنے ووٹروں کوٹارگیٹ دیتی ہیں ۔ اس بار مجھے چار لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے کامیاب بنانا۔ حالانکہ یہ بھاجپا کا گڑھ ہے یہاں سے اٹل بہاری واجپئی جیتے اور پھر پانچ بار شیو راج سنگھ چوہان جیتے اور اس کے بعد سشما جی جیتیں۔ سشما کی جیت یقینی ہے، دیکھنا بس اتنا ہے کہ کتنی اکثریت سے جیتتی ہیں۔ جھارکھنڈ کی دمکا پارلیمانی سیٹ پراس بار سورماؤں کی ٹکر ہے۔ دو پارلیمانی حلقے چھترب ،جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے چیف شیبو سورین و چھبیا چیف بابو لال مرانڈی کے لئے یہ سیٹ آن کی لڑائی بن گئی ہے۔ صوبے کے وزیر اعلی ہیمنت سورین بھی والد کی جیت کے لئے یہاں سب سے زیادہ وقت دے رہے ہیں۔ 1998ء کے بعد یہ پہلا موقعہ ہوگا جب شیبو سورین کے سامنے بابو لال مرانڈی ہیں۔مغربی بنگال کی رام گنج لوک سبھا سیٹ پر ایک دلچسپ مقابلہ ہورہا ہے۔ یہاں دیو بھابی کے درمیان چناوی لڑائی ہے۔ کانگریس نے جہاں سابق مرکزی وزیر پریہ رنجن داس منشی کی بیوی دیپا منشی کو پھر سے میدان میں اتارا ہے تو وہیں ترنمول کانگریس نے پریہ رنجن کے بھائی ستیہ رنجن داس منشی کو ٹکٹ دیا ہے۔پریہ رنجن کی سیاسی وراثت پانے کے لئے دیور۔ بھابی آمنے سامنے ہیں جبکہ بھاجپا نے ایک اداکار کو اتاراہے ۔ مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی نے یہاں سے سابق ایم پی محمد سلیم کو میدان میں اتارا ہے۔ممتا کی ساکھ اگر داؤ پر ہے تو کانگریس کے لئے بھی اس سیٹ کی اہم کم نہیں ہے۔ مغربی بنگال میں مودی کی لہر پر ٹکی ہیں بھاجپا کی امیدیں۔ آج 24 اپریل کو اترپردیش میں تیسرے مرحلے کے چناؤ میں برج اور وسطی یوپی میں جن 12 سیٹوں پر مقابلہ ہونا ہے اس میں سب سے بڑی چنوتی سماجوادی پارٹی اور بھاجپا کے سامنے ہے۔ اس مرحلے میں خود سپا چیف ملائم سنگھ یادو میدان میں ہیں جبکہ ان کے کنبے کے دو افراد کی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہے۔ سپا چیف کے سامنے قنوج سے ڈمپل یادو، فیروز آباد سے بھتیجے اکشے یادو کو جتانے کی چنوتی ہے۔ اس مرحلے میں سب سے زیادہ سیٹوں والے اپنے گڑھ کو بھی بچانے کی ذمہ داری ان پر ہے۔ تیسرے مرحلے میں یہ 12 سیٹیں سپا کا گڑھ مانی جاتی ہیں چونکہ ملائم سنگھ جس صیفئی گاؤں کے ہیں وہ بھی اسی علاقے میں آتا ہے۔ پچھلے چناؤ میں سب سے زیادہ چار سیٹیں یہیں سے سپا کو ملی تھیں۔دوسری طرف بھاجپا کے حکمت عملی سازوں کا نشانہ ہے کہ اترپردیش میں80 سے50 سیٹیں مل جائیں بھلے ہی ٹکٹ دینے میں غلطی ہوگئی یا ذات پات کے حساب پر توجہ نہیں دی گئی لیکن پارٹی کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ بھاجپا نے شروعات میں 1998ء والا ٹارگیٹ یوپی کے لئے رکھا تھا جب پارٹی کو 85 میں سے58 سیٹیں ملی تھیں۔ایک سینئر لیڈر نے کہا کہ امت شاہ نے چھ مہینے پہلے یوپی کی ذمہ داری لینے کے ساتھ مشن یوپی پر کام شروع کردیا تھا۔ان کے قریبی نے کہا کہ یوپی میں بی جے پی ہمیشہ ووٹوں کے58 فیصدی میں لڑائی لڑتی آرہی ہے کیونکہ 42 فیصدی نے ہمیں کبھی روایتی طور سے ووٹ نہیں دیا۔ اس میں مسلمان، یادو، دلت شامل ہیں۔ ان میں 58 فیصد میں سب سے بڑا حصہ پسماندہ ذاتوں کا ہے اس لئے ہم نے28 ٹکٹ او بی سی کو دئے ہیں۔ پارٹی نے 17 ٹھاکروں کے مقابلے19 براہمنوں کو دئے ہیں۔ مودی مشن272 کے لئے 24 اپریل یعنی آج ہونے والے چناؤ میک اوور کی طرح ہیں۔ اگر بھاجپا کو اس مرحلے میں کامیابی ملتی ہے تو مشن 272+ تک پہنچنا آسان ہوجائے گا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں