لوک سبھا2014ء چناؤ اور مسلم رائے دہندگان؟
عام چناؤ 2014ء میں ایک اہم سوال یہ ہے دیش کے مسلمان کس کو ووٹ دیا ہے اور کس کو نہیں دینا کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ممبئی کے ایک مشہور انگریزی اخبار نے 4 اپریل کو اپنے شمارے میں بھاجپا نیتاکریٹ سمیاکایہ بیان شائع کیا ہے کہ میں نے بہت کوشش کی مگر مسلمانوں کو بھاجپا کو ووٹ دینے کے لئے راضی کرنے میں اب تک کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ خیال رہے کریٹ سمیا صرف ایک بار 13ویں لوک سبھا کے لئے ممبئی نارتھ ایسٹ سے چنے گئے، کوئی دوسرا موقعہ انہیں نہیں ملا۔ جس کی سب سے بڑی وجہ مسلم فرقے کی ان سے دوری ہے۔ اس سلسلے میں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جو حال ممبئی نارتھ ایسٹ لوک سبھا حلقے میں کریٹ سمیا کا ہے تقریباً وہی حال دیش بھر کے ان بھاجپا امیدواروں کا ہوگا جو 16ویں لوک سبھا کی ممبر شپ پانے کے لئے اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔ خود مبصرین کا کہنا ہے نریندر مودی کی نامزدگی اور بھاجپا مسلمان فرقے کی دوری جو پہلے کبھی کم نہیں تھی اور مزید گہری ہوگئی ہے۔ رہی سہی کثر گری راج سنگھ ، پروین توگڑیا جیسے کٹر نیتا پوری کررہے ہیں۔ کٹر نظریات کے مسلمانوں میں آج عمران مسعود جیسے کٹر ذہن لوگ ہیرو بن گئے ہیں۔ مودی کو کوئی تو گاڑھ رہا ہے ،کوئی ان کی بوٹی بوٹی کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔ اس میں شاید ہی کسی کو شبہ ہو کے مسلم فرقے کے سارے لوگ یا تو پڑھے لکھے ہوںیا تھوڑا بہت پڑھنا لکھنا جانتے ہوں، امیر ہوں یا غریب، یا ذاتی کاروبار کرتے ہوں یا افسر ہوں سب کانگریس سے ناراض ہیں۔ یہ ناراضگی اتنی زیادہ ہے کوئی بھی شخص بہت آسانی سے کانگریس کے کارناموں کو گنا سکتا ہے۔ حال ہی میں ختم ہوئے مغربی اترپردیش کے مظفر نگر سمیت 10 سیٹوں پر پولنگ ہوئی اس میں مسلم ووٹروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہاں بہت سے لوگ دنگوں کو لیکر ناراض ہیں۔ انہوں نے نہ تو کانگریس کو ووٹ دیا اور نہ ہی سپا کو۔ انہوں نے بسپا ’آپ‘پارٹی کو اپنا ووٹ دینا بہتر سمجھا۔ حالانکہ میرا خیال ہے کہ مسلمانوں کے ایک طبقے نے نریندر مودی کو بھی ووٹ دیا ہے۔ مسلمانوں کا ایک پڑھا لکھاطبقہ مودی کو ایک موقعہ دینے کے حق میں دکھائی پڑتا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے شیعہ عالم مولانا کلب جواب اور مولانا محمود مدنی کے بیان بھی اس طرف اشارہ کرتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی میں دوسرے فرقے کے لوگوں کی طرح مسلم فرقے کے اندر بھی دلچسپی بڑھی ہے مگر اپنی جلد بازی میں اس نے بہت سے لوگوں کو مایوس کیا ہے۔ اگر’ آپ‘ صبر سے کام لیتی ، دہلی سرکار کو ٹھیک ڈھنگ سے چلاتی اور اچھے انتظامیہ مثال بنتی اور2019ء کے چناؤ دنگل میں پوری طاقت سے اترتی تو وہ بہت اچھی ثابت ہوسکتی تھی لیکن اس نے 70 سیٹوں والی دہلی کو چھوڑ کر 547 سیٹوں والی لوک سبھا کی طرف لڑنے کی اڑان بھری اور یہ نہیں دیکھا جان کتنی چھوٹی ہے، پنکھ کمزور اور چناوی آسمان کتنا وسیع ہے۔ مسلم ووٹر یہ سب دیکھ رہا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے مسلمان اب بھی شش و پنج میں مبتلا ہے۔ اس کے پاس حکمت عملی کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے یا مسلم ووٹ بسپا ،سپا ،ترنمول کانگریس، ’آپ‘ اور کانگریس (سونیاامام بخاری ملاقات کا سبب نہیں) وغیرہ پارٹیوں میں جائے گا۔اس وقت مسلم تیور صاف دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ اس بار بڑی تعداد میں پولنگ کے لئے اپنے گھروں سے نکلیں گے اورزیادہ سنجیدگی سے ووٹ دینے کی پالیسی اپنائیں گے ۔ زیادہ تر جگہوں پر ان کا نشانہ ایک ہی ہوگی۔۔۔بھاجپا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں