دیویانی معاملے میں دونوں ملکوں کی ساکھ داؤ پر لگی ہے!

امریکہ میں ہندوستانی سفارتکار دیویانی کھوبڑاگڑے تنازعہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ امریکہ میں ایک فیڈرل جج نے ابتدائی سماعت کے لئے 13 جنوری کا وقت طے کئے جانے کے بعد ہندوستانی ڈپلومیٹ دیویانی کی درخواست کو منظور کرلیا ہے۔فلاں تاریخ تک مقدمہ دائر کیا جانا چاہئے۔ نیویارک کی ساؤتھ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جج سارا نیڈ برن نے ابتدائی سماعت کی تھی۔سزا کی میعاد کو 13 جنوری تک بڑھائے جانے پر دیویانی کے وکیل ڈینیل اراک نے کہا کہ ہم اپنے متبادلوں پر غور کررہے ہیں۔ بھارت نے امریکہ کے ذریعے دیویانی کے حق میں تمام دلیلوں کو مسترد کردیا ہے۔ مجبوراً بھارت نے جوابی کارروائی شروع کردی ہے۔تازہ قدم اٹھاتے ہوئے حکومت ہند نے امریکی سفارتخانے سے کہہ دیا ہے کہ وہ امریکہ کی کمیونٹی سپورٹ ایسوسی ایشن ایس ایس اے کے زیر اہتمام چلائی جارہی تمام کاروباری سرگرمیوں کو روک دے۔ اس میں ریسٹوراں ،بار، ویڈیو کلب، سوئمنگ پول، اسپورٹس فیلڈ، بیوٹی پارلر اور جم شامل ہیں۔ دیگر ہدایت کے علاوہ امریکہ سے اس کے ذریعے کمرشل سرگرمیوں کے لئے ہندوستانی حکام کو دئے گئے ٹیکس ریزرو بھی دینے کو کہا گیا ہے۔ بھارت میں غیر سفارتکارو ں کو اس طرح کی کمرشل سرگرمیوں کی سہولت کو ڈپلومیٹک رشتوں پر1961ء کے ویانا معاہدے کی دفعہ 41:3 کی خلاف ورزی بتایا جاتا ہے۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ سرکار نے امریکہ سے کہا ہے کہ تین مہینے کے بعد سے وہ صرف اپنے سفارتی ملازمین کے لئے شناخت سے جڑے پروڈکٹس اور سگریٹ جیسے سامان سیدھے حاصل کرسکیں گے۔ اس سے پہل وہ دہلی میں واقع غیر ملکی مشنوں کے سفارتی ملازمین کے حصے کا سامان بھی حاصل کرتے تھے اور اس کے لئے یہ دلیل دی جاتی تھی کہ چار ہندوستانی ایس سی ایس اے کے ممبر ہیں۔ سرکاری ذرائع نے بتایا اس سے پہلے اے سی ایس اے قریب40 مشنوں کی طرف سے پورا فری ساما ن حاصل کرتا تھا۔ سمجھا جاتا ہے کہ امریکی سفارتکاروں کی گاڑیوں کو اب ٹریفک سے وابستہ ہر ایک کرائم کے لئے سزا دی جائے گی۔ دیویانی معاملہ دونوں ملکوں کے بیچ ایک کشیدہ اشو بن گیا ہے۔ امریکہ اگر معاملے کو سلجھانے چاہتا ہے تو اس کے پاس اب تین متبادل ہیں۔ پہلا متبادل ہے سال2012 دسمبر کو جعلی ویزا اور غلط جانکاری دینے کے الزام میں گرفتار دیویانی کو اقوام متحدہ میں ان کے شناختی کارڈ کو تسلیم کرکے ان کے خلاف عدالت کے محکمہ قانونی انصاف کے ذریعے مجرمانہ الزامات کے تحت مقدمہ دائر کئے جانے سے پہلے انہیں جوڈیشیل چھوٹ دی جائے۔ دوسرا متبادل ہے کے39 سالہ کھوبڑاگڑے کا اقوام متحدہ میں تبادلہ اور پھر ان پر مجرمانہ الزامات لگائے جانے کے بعد ان کو ایک ڈپلومیٹ کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ حالانکہ ہندوستانی ڈپلومیٹ دیویانی اور بھارت دونوں کے لئے کچھ تناؤ تو ضرور پیدا ہوگیا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کھوبڑا گڑے کو اقوام متحدہ میں ٹرانسفر کرنے سے متعلق کاغذات20 دسمبر کو ملے تھے۔اتنے دن گزرجانے کے بعد بھی وزارت خارجہ کاغذات کا جائزہ لے رہا ہے اور اس معاملے کو زیادہ ہی لمبا کھینچ رہا ہے۔موجودہ حالات میں امریکہ کے لئے سب سے بہتر پہلا متبادل ہے ۔دراصل امریکہ نے اس معاملے کو اپنے وقار کا سوال بنا لیا ہے اور وہ دنیا کے سامنے جھکنا نہیں چاہتا۔ ادھر بھارت سرکار نے ٹھان لی ہے کہ لڑائی آر پار کی ہے۔ اگر دونوں ملکوں کے رشتوں میں دراڑ پڑتی ہے تو اس کے لئے امریکہ ہی ذمہ دار ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!