منموہن سنگھ کی 9 سال میں تیسری فلاپ پریس کانفرنس!

وزیر اعظم منموہن سنگھ نے تقریباً10 سالہ پردھان منتری کے عہد میں اپنی تیسری پریس کانفرنس کی۔ نئے بنے نیشنل میڈیا سینٹر میں خاص طور سے چنندہ صحافیوں کو بلایا گیا تھا۔ پی ایم او نے اپنے 185 چہیتے اخبار نویسوں کو دعوت دیکر یہ کانفرنس بلائی تھی۔ پی آئی بی میں رجسٹرڈ 1500 سے زائد صحافیوں میں سے 185 صحافیوں و الیکٹرانک میڈیا کو بلایا گیا تھا۔ منموہن سنگھ سے زیادہ تلخ چبھنے والے سوال نہ پوچھے۔ ظاہر سی بات ہے روزنامہ ویر ارجن، پرتاپ، ساندھیہ ویر ارجن سے کسی کو اس کے لائق نہیں سمجھا گیا۔ خیر چھوڑیئے ہمیں تو عادت پڑ گئی ہے پچھلے تقریباًدس برسوں کے اپنے عہد میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ہمیں تو ایک بار بھی اپنے گھر پر نہیں بلایا۔اٹل جی تو سل میں کئی بات تمام اخباری برادری کو 7 ریس کورس بلا لیا کرتے تھے اور غیر ملکی دوروں میں بھی ساتھ ے جایا کرتے تھے لیکن منموہن سنگھ نے اپنی ربڑ اسٹمپ نوکر شاہی کے غلام اور ریمورٹ کنٹرول کے ماتحت راج کیا۔ اس پریس کانفرنس کا ہمیں تو مطلب ہی نہیں سمجھ میں آیا۔ ایک بات ضرور سامنے آئی کے منموہن سنگھ آخر کار ریٹائرڈ ہورہے ہیں۔ وہ اگلے وزیر اعظم کی دوڑ میں شامل نہیں ہیں۔ راہل گاندھی اگلے پی ایم امیدوار ہوں گے۔ عزت مآب وزیر اعظم نے گھوٹالوں کو نہ روک پانے کے جواب میں کہا کہ یہ سب یوپی اے ۔I عہد میں ہوئے اور اس کے بعد ہم2009ء میں دوسری بار جیت کر آچکے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ووٹروں نے کرپشن کے الزامات پر زیادہ توجہ نہیں دی حالانکہ انہوں نے مانا ان معاملوں میں گڑبڑیاں ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میری کمزوریوں کی وجہ سے(کانگریس) میں سے کسی نے مجھے استعفیٰ دینے تک کو نہیں کہا۔آخر اس بات کو انہوں نے تسلیم کیا کہ حال ہی میں اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی ہار کی ایک وجہ مہنگائی بھی رہی۔ لوگ کانگریس کے خلاف ہیں اس کی وجہ ہمارے کنٹرول سے باہر تھی کیونکہ عالمی سامان کی قیمتیں بڑھ رہی تھیں ایسے میں ہمارے لئے قیمتیں کنٹرول کرنا مشکل تھا یعنی کے وزیر اعظم نے مہنگائی کو بین الاقوامی حالات پر تھوپ دیا اور یہ نہیں مانا کے مہنگائی ان کی سرکار کی غلط اقتصادی پالیسیوں کے سبب رہی اور ان کی سرکار اور پارٹی کے گھوٹالوں کی وجہ سے بڑھی۔ ادھر منموہن سنگھ پریس کانفرنس کررہے تھے اور شام ہوتے ہوتے پیٹرول اور ڈیزل کے دام بڑھا دئے گئے۔ سی این جی کے دام پہلے ہی بڑھ چکے ہیں۔ سب سے تکلیف دہ پہلو اس پریس کانفرنس کا شاید یہ رہا کہ جس طریقے سے انہوں نے بی جے پی کے پی ایم امیدوار نریندر مودی پر تلخ تبصرہ کیا عام طور ہر منہ نہ کھولنے والے نرم گو شخصیت کے مالک ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ایسی بات کہہ دی جو کسی بھی وزیر اعظم کو زیب نہیں دیتی۔ اور نہ ہی ان سے ایسی امید تھی۔ وزیر اعظم نے غیر رسمی طور سے سخت تلخ تیور اپناتے ہوئے بڑی اپوزیشن پارٹی بھاجپا کے لیڈر نریندر مودی کے بارے میں کہا کہ 2002ء کے گجرات دنگوں میں بے قصور لوگوں کے قتل عام کو انہوں نے نظر انداز کیا۔ اگر کوئی مضبوط ہوتا تو وہ ایسا نہیں کرتا۔ اگر مضبوط پردھان منتری کو بھانپنے کا آپ کا پیمانہ احمد آباد کی سڑکوں پر شہریوں کے قتل عام کو نظرانداز کرنے کا تھا میں نہیں جانتا کہ دیش کو اس طرح کے مضبوط وزیر اعظم کی ضرورت ہے جو سب کا خیال رکھے اور نریندر مودی کا وزیر اعظم بننا دیش کے لئے تباہ کن ہوگا۔ وزیر اعظم کی شکل میں میں نے اپنا سب سے اچھا کام کیا ہے اور دیش کو ترقی کی اچھی رفتار دی ہے۔ میں نہیں مانتا کہ میں ایک کمزور وزیر اعظم ہوں۔ یہ تاریخ داں فیصلہ کریں گے بھاجپا اور ان کے ساتھی جو کہتے رہے ہیں پردھان منتری کو اس طریقے سے دیش کے ایک مکھیہ منتری کو نظرانداز کرکے ان الفاظ کا استعمال نہیں کرنا چاہئے تھا۔دہلی میں84ء کے دنگے ،آسام اور مظفر نگر میں حال ہی میں ہوئے دنگے گجرات دنگوں سے زیادہ خوفناک تھے۔ صرف گجرات دنگوں کی بات کرنا کہاں تک دلائل پر مبنی ہے اور ان کا یہ بیان زیب نہیں دیتا؟ خاص کر جب حال ہی میں سپریم کورٹ ،ایس آئی ٹی عدالتوں نے نریندر مودی کو کلین چٹ دے دی ہے۔ بھاجپا پی ایم کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ بھی کرسکتی ہے۔ آخر میں منموہن سنگھ کے طویل سیاسی سفر جو 22 سال کے قریب ہے ختم ہونے جارہا ہے۔ پانچ سال تک وہ وزیر خزانہ رہے جو ہماری نظروں میں سب سے اچھا عہد تھا کیونکہ انہوں نے دیش کو صحیح اقتصادی سمت دی۔ اس کے بعد8 سال وہ اپوزیشن کے لیڈر رہے اور پھر 9 سال کے لئے بطور وزیر اعظم رہے۔ اتنے دن سیاست میں رہنے کے باوجود وہ غیر سیاسی رہے اور ایک افسر شاہ سے بڑھ کر کچھ نہیں بن سکے ان کے عہد کو پتہ نہیں تاریخ داں کیسے بیان کریں گے۔ ہماری نظروں میں تو وہ نہایت ناکام ،لاچار، مایوس اور ربڑ کی مہر جیسے لیڈر رہے جنہوں نے اپنی ساری دنیا ریموٹ کنٹرول سے چلائی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟