بیباک دہلی پولیس کمشنر بھیم سین بسّی!

یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ آخر کار دہلی کو ایک ایسے پولیس کمشنر مل گئے ہیں جو جرائم کے اعداو شمار کے چھلانے یا دبانے میں یقین نہیں رکھتے اور کھل کر کہتے ہیں وہ نمبروں کی پرواہ نہیں کرتے۔ معاملے درج ہوں گے یہ شخص ہیں مسٹر بی ایس بسیّ۔ نئے سال میں پولیس کا ارادہ اعدادو شمار پر غور کرنے کی بجائے جرائم پیشہ پر نکیل کسنے کا ہے۔دہلی پولیس کمشنر بھیم سین بسی نے سالانہ پریس کانفرنس میں ’’اسکرین ونڈو‘‘ اصول کا حوالہ دیتے ہوئے اعلان کیا کے جرم ناقابل برداشت ہے۔ جرم کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ جرائم درج ہوں گے تبھی ملزمان پکڑے جائیں گے۔ ہم ان کے نظریات کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ عام طور پر ہم میڈیا والے پولیس کی نکتہ چینی کرتے رہتے ہیں لیکن جب پولیس اچھا کام کرتی ہے تو اس کی تعریف کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔ بات شروع کرتے ہیں مہلا عزت معاملوں سے متعلق۔ پولیس کمشنر نے بتایا کہ 2013ء میں آبروریزی کے 1569 معاملے درج ہوئے ہیں جن میں سے1398 معاملوں کو سلجھایا گیا۔ ان میں 78 فیصدی معاملوں کو سلجھانے میں ایک دو ہفتے لگیں گے۔ دوسری طرف ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے ایک بار پھر دہلی جرائم کی راجدھانی ثابت ہوئی۔ سال2012ء کے مقابلے میں نہ صرف آبروریزی کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے بلکہ ڈکیتی ، لوٹ مار،اقدام قتل اور عورتوں سے چھیڑ چھاڑ اور زر فدیہ کے لئے اغوا اور جھپٹ ماری میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ اعدادو شمار کو دیکھیں تو سال 2013ء میں یہ تعداد بڑھ کر73958 تک پہنچ گئی۔2012ء کے مقابلے میں یہ دوگنا سے زیادہ آبروریزی کے معاملے 1559 سامنے آئے۔ 2012ء میںیہ نمبر680 تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کے نربھیہ قتل کے بعد اب لڑکیاں کھل کر بدفعلی کے خلاف شکایتیں درج کرا رہی ہیں۔ سبھی کے لئے یہ ایک تشویش کا باعث ہے۔ ڈرگس اسمگلنگ معاملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سال2012ء کے مقابلے 2013ء میں ڈرگس اسمگلنگ کے معاملے بڑھے ہیں۔ دہلی پولیس کی نارکوٹکس ٹیم نے 2013ء میں ڈرگس کے435 معاملے درج ہوئے جو پچھلے سال کے مقابلے زیادہ ہیں۔ دہلی پولیس اب عورتوں سے بدفعلی کے معاملوں میں20 دن کے اندر عدالت میں چارج شیٹ داخل کردے گی۔بسی صاحب نے ایک حکم جاری کیاکے متاثرہ کو فوراً انصاف ملے اس کے لئے جانچ کی رفتار بڑھانی ہوگی۔ جن معاملوں میں 20 دن میں چارج شیٹ داخل نہیں ہوگی اس کی وجہ جوائنٹ کمشنر کو بتائی جائے گی۔ پولیس کو دیگر معاملوں میں بھی نمٹنا پڑتا ہے۔ دہلی میں مختلف معاملوں پر راجدھانی کے لوگوں میں غصہ ،ریلیاں، دھرنے مظاہروں کے معاملوں میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ نربھیہ معاملہ کرپشن کے خلاف لڑائی یا پھر گاندھی نگر میں پانچ سال بچی سے آبروریزی کی دل دہلانے والی واردات پر دہلی کے شہریوں کی زبردست ناراضگی دیکھنے کو ملی۔ لوگوں نے نہ صرف سسٹم کے خلاف اپنے غصے کو دھرنے اور مظاہروں کے ذریعوں سے پوری راجدھانی کے لوگوں تک پہنچایا بلکہ انہیں اس لڑائی میں شامل کیا۔ وہیں دوسری طرف دہلی پولیس بھی قانون و سسٹم کو بنانے میں سال بھر لگی رہی۔ جانتے ہیں کہ راجدھانی کی پولیس کنٹرول روم میں سال2013ء میں کتنی کالیں آئیں۔ یہ ہر روز 25 ہزار کے قریب بنتی ہیں۔ پی سی آر نے 30130 زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا۔ پی سی آر ملازمین کے پاس 807 وین،138 موٹر سائیکلیں ہیں۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ دہلی پولیس کتنے مورچے پر پبلک کا ساتھ دیتی ہے۔ ہم تنقید تو کرتے ہیں لیکن کبھی تو مثبت نظریہ بھی دکھانا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!