لوک سبھا چناؤ میں کانگریس کے ساتھ گاندھی خاندان کا مستقبل بھی داؤ پر!

17 جنوری کو نئی دہلی میں ایک روزہ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا اجلاس ہونے جارہا ہے۔ یہ اجلاس لوک سبھا چناؤ سے پہلے ہورہا ہے اس لئے اس کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ کوشش یہ کی جارہی ہے اس اجلاس سے پہلے پارٹی اور حکومت میں وسیع تبدیلی کی خانہ پوری کرلی جائے۔ موصولہ اشاروں سے پتہ چلتا ہے کہ راہل گاندھی کو پی ایم امیدوار بنانے کی تیاریاں جاری ہیں۔ اے آئی سی سی کا ایجنڈا طے کرنے کے لئے منگلوار کو راہل گاندھی کی غیر موجودگی میں ان کے ہی گھر پر پرینکا گاندھی واڈرا نے کانگریس تنظیم سے وابستہ سرکردہ لیڈروں کے ساتھ میٹنگ کی۔ اس میں احمد پٹیل، جناردن دویدی، جے رام رمیش، مدھو سودن مستری، موہن گوپال اور اجے ماکن جیسے سرکردہ لیڈر شامل ہوئے۔ یہ لیڈر کانگریس تنظیم اور سونیا گاندھی کے قریبی مانے جاتے ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ میڈم سونیا اپنی صحت کی وجہ سے اب زیادہ سرگرم رول نہیں نبھا پارہی ہیں۔ راہل گاندھی کو کانگریس کی باگ ڈور پوری طرح سونپنا چاہتی ہیں۔ لوک سبھا2014ء کے چناؤ کانگریس کے لئے اہمیت کے حامل ہیں لیکن ساتھ ساتھ نہرو گاندھی خاندان کا سیاسی مستقبل بھی طے ہوجائے گا۔ اگر 2014 ء میں کانگریس اتحاد سرکار نہیں بنا پاتا تو یقینی طور سے یہ نہرو۔ گاندھی خاندان کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا سکتا ہے اسلئے داؤ نہ صرف پارٹی کا ہی مستقبل ہے بلکہ سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور پرینکا کا مستقبل بھی طے کرے گا۔ عام آدمی پارٹی کے سیاسی پس منظر میں آنے سے کانگریس میں کھلبلی مچنا فطری ہے۔ بیشک کانگریس کی دہلی میں کیجریوال سرکار کو بنا شرط حمایت دینے سے ملی بھگت ثابت ہوجاتی ہے لیکن کانگریس کی تاریخ سے سبق لینا چاہئے۔ ایسے ہی جرنیل سنگھ بھنڈراں والا کو پہلے تو کانگریس نے اکالیوں کو نیچا دکھانے کے لئے کھڑا کیا۔ بعد میں وہی بھنڈراں والا کانگریس پر کتنا بھاری پڑا یہ سبھی کو معلوم ہے۔اسی وجہ سے ابھی سرکردہ لوگوں کے بھروسے مند مرکزی وزیر جے رام رمیش نے بیشک تبصرہ کردیا ہو لیکن رمیش کو کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ کاابھرنا سیاسی پارٹیوں کے لئے ایک وارننگ ہے۔ انہوں نے لوگوں کی آواز نہیں سنی تو جلد ہی وہ تاریخ کا حصہ بن جائیں گی۔ رمیش نے کہا عام آدمی پارٹی نے سیاسی توقعات کو پھر سے قائم کیا ہے۔ اس نے سیاسی نظریہ ہی بدل ڈالا ہے۔اب تک یہ ٹرینڈ سیاست تک ہی محدود تھا لیکن اگر کانگریس بی جے پی اور علاقائی پارٹیوں نے لوگوں کی آواز نہیں سنی تو وہ جلد ہی تاریخ کے اوراق میں سما جائیں گی۔ دراصل کانگریس میں لائق لیڈروں کی کمی نہیں لیکن انہیں آگے بڑھنے کا موقعہ نہیں دیا جاتا۔راہل گاندھی پر آپ 500 کروڑ روپے ان کی ساکھ چمکانے میں بیشک لگادیں ۔17 جنوری کو ان کے نام پر مہر لگوا لیں لیکن اس سے کانگریس کی حالت بدلنے والی نہیں ہے۔ اس وقت کانگریس کے اندر کئی لابیاں کام کررہی ہیں ان میں سے 10 جن پتھ کی سونیا گاندھی کی لابی حاوی ہے۔ راہل گاندھی کی اپنی لابی ہے، منموہن سنگھ کی اپنی لابی ہے۔ سبھی لابیوں میں زیادہ تر غیر سیاسی افسر شاہی نظریئے کے لوگ ہیں جو جنتا سے بری طرح کٹے ہوئے ہیں۔ انہیں جنتا کا دکھ درد سمجھ نہیں آتا۔ان میں جنتا کے تئیں ہمدردی ہے جو ورکر جنتا سے جڑے ہیں وہ لیڈر شپ میں پالیسیاں بنانے میں ندارد ہیں۔ کانگریس اگر جنتا سے کٹ رہی ہے تو وہ منموہن سنگھ سرکار کی عوام مخالف اقتصادی پالیسیاں ہیں اور جب خود وزیر اعظم یہ کہیں کے مہنگائی اور گھوٹالوں پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں تو جنتا کانگریس سے کیا امید کرسکتی ہے؟ ان حالات میں کانگریس لیڈر شپ چاہے راہل گاندھی کو یا پرینکا کو ہمیں نہیں لگتا کے کانگریس کی حالت میں کوئی بہتری ہوگی۔ باقی تصویر17جنوری کو آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے اجلاس کے بعد ہی صاف ہوجائے گی۔ کانگریس میں دو بڑی تبدیلیاں ہونے کی امید ہے۔ دیکھیں یہ تبدیلیاں کیا کیا ہوتی ہیں لیکن کانگریس میں بڑے غور و خوض کے بعدتبدیلیاں کرنی ہوں گی کیونکہ2014 لوک سبھا چناؤ میں صرف کانگریس پارٹی کا مستقبل ہی نہیں طے ہوگا بلکہ خود نہرو۔ گاندھی پریوار کا سیاسی مستقبل بھی داؤ پر ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟