نرسری داخلے کا معاملہ: اسکول سرکاری گائڈ لائنس نہیں مان رہے!

دہلی کے نرسری اسکولوں میں داخلے کا اشو لاکھوں ماں باپ اور بچوں کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ دہلی سرکار کے وزیر تعلیم منیش سسودیا نے دہلی کے سرکاری اسکولوں پر نظر رکھنے کے لئے والینٹیروں کی ٹیم بنائی ہے جو روزانہ اسکولوں(سرکاری) میں جاکر ٹوائلٹ ، پانی، صاف صفائی اور ٹیچروں کی موجودگی پر نظر رکھے گی۔ یہ ٹیم روزانہ اپنی رپورٹ وزیر تعلیم کو دے گی لیکن جھگڑا پرائیویٹ اسکولوں میں نرسری داخلے کا ہے۔ داخلے کے لئے رجسٹریشن 15 فروری سے شروع ہورہے ہیں۔ اس مرتبہ دہلی سرکار کی گائڈ لائنس نے والدین کو بڑی راحت دی ہے تو وہیں اسکول اس کے خلاف ہائی کورٹ پہنچ گئے ہیں۔ جس وجہ سے داخلے میں دیری ہونے کا امکان ہے۔ تو ادھر اسکول درخواستوں سے پہلے ہی عجیب و غریب شرطیں رکھ رہے ہیں۔ اس بار 30 مارچ تک داخلہ چلے گا اور پوائنٹ سسٹم کی بنیاد پر داخلہ ہوگا۔ اسکول ابھی سے اپنے ضابطے بنا رہے ہیں لیکن ان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ والدین کو چاہئے کے وہ گائڈ لائنس کو پڑھ کر قاعدے سے درخواستیں دیں۔ اس بار دوری کا دائرہ بڑھایا گیا ہے۔ پچھلے سال جہاں پانچ کلو میٹر کا تھا وہیں اس مرتبہ آٹھ کلو میٹر تک دائرے میں آنے والے اسکولوں میں والدین اپنے بچوں کے لئے فارم بھر سکتے ہیں۔ اس کے سب سے زیادہ پوائنٹ70 رکھے گئے ہیں لیکن نجف گڑھ ، روہیلا، بوانا، نریلا جیسے دیہات اور باہری دہلی کے علاقے ایسے ہیں جہاں 11 کلو میٹر تک کوئی اسکول نہیں ہے ایسے والدین کو سب سے زیادہ دقت ہے۔ پرانے طلباکو بھی اسکول پوائنٹ دیتا ہے۔ اس طبقے میں والدین جن اسکولوں میں پڑھ چکے ہیں وہاں بچوں کا داخلہ کرا سکتے ہیں انہیں اس کے لئے پانچ پوائنٹ ملیں گے۔ والدین کتنے سال تک پڑھے ہیں اس بارے میں کوئی قاعدہ نہیں ہے لیکن کچھ اسکول10 ویں تک پڑھنے کی شرط رکھ رہے ہیں تو کسی کا کہنا ہے والدین اسکول کے 12 ویں کے طالبعلم رہے ہوں۔ ایسے میں ان والدین کو سب سے زیادہ دقتیں آرہی ہیں جو اسکول میں ایک یا دو سال پڑھے ہوں۔ دوارکا میں واقع ’فیب انٹرنیشنل اسکول‘ ویج اور نان ویج ہونے کیلئے بھی پوائنٹ دے رہا ہے۔ اسکول کے مطابق اگر کوئی والد سبزی خور ہے وہ دور کے علاقے سے درخواست کرتا ہے تو اسے 60 پوائنٹ دوری کے اور10 پوائنٹ ویج ہونے کے ملیں گے۔ اسکولوں نے ایسی شرطیں رکھیں تھیں والدین کی انجمن کا کہنا ہے ایسی شرطیں ذاتیات کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔اس کے علاوہ ان طلبہ کے بھی فارم قبول کئے جائیں گے جن کے سگے بھائی بہن اسی اسکول میں پڑھتے ہوں لیکن کئی اسکول ایسے بھی ہیں جو تایا چاچا کے بچوں کو بھی قبول کرتے ہیں۔ دراصل کسی بھی اسکول میں صاف طور پر قاعدے طے نہیں ہیں۔ والدین کو دقت تب ہوتی ہے جب وہ 10اسکولوں میں ایک ساتھ فارم بھرتے ہیں۔ مان لیجئے کسی گھر کے چار بچے الگ الگ اسکول میں پڑھتے ہیں اگر والدین سملنگ طبقے میں فارم بھرتے ہیں تو کچھ منظور ہوں گے تو کچھ نہیں ایسے میں قواعد کی تشریح ضروری ہے۔ اس کے علاوہ نرسری کے ساتھ ساتھ پری نرسری میں داخلے کو لیکر بچے کی عمر طے کرنے کیلئے اسکولوں کی منمانی سامنے آرہی ہے جبکہ نرسری پری نرسری میں داخلہ لینے والے بچوں کی عمرکیا ہو اس بارے میں سرکار پہلے ہی گائڈ لائنس جاری کرچکی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!