سربجیت معاملے میں ایک بار پھر پاک بے نقاب ہوا
آخر وہ ہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ لاہور کے جناح ہسپتال میں زندگی اور موت کے درمیان لڑ رہے ہندوستانی شہری سربجیت نے بدھوار کی دیر رات دم توڑدیا۔ میڈیکل بورڈ کے چیف محمود شوکت نے سربجیت کی موت کی تصدیق کی۔سربجیت کی موت ایسے وقت ہوئی جب ان کا پریوار ان کے بہتر علاج کی مانگ کو لیکر صبح ہی ہندوستان لوٹ آیا تھا۔ ایک بے قصور آدمی دونوں دیشوں کی سیاست کا شکار ہوگیا۔ 22 سال کم نہیں ہوتے وہ بھی اس گناہ کے لئے جو کیا ہی نہ گیا ہو۔ غلط پہچان کی بنیاد پر کسی انسان کو جیل میں رکھنا اور پہچان بتانے والے ثبوتوں کو درکنار کردینا، حیرانی کی بات ہے۔ یہ ہے اس بدقسمت سربجیت کی کہانی۔ 49 سالہ سربجیت کو1990 میں پاکستانی پنجاب صوبے میں ہوئے بم دھماکوں میں شامل ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان دھماکوں میں 14 لوگوں کی جانیں گئی تھیں۔ سربجیت کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ بھارت اسے غلط پہچان بتاتا رہا ہے۔ سربجیت پنجاب کے ترنتارن ضلع کے سکھونڈ گاؤں کا رہنے والا تھا۔اویس شیخ پاکستان میں سربجیت کے وکیل تھے ، کا کہنا ہے جن دفعات میں سربجیت پر مقدمہ چلایا گیا تھا ان میں سربجیت کے ملوث ہونے کا ثبوت نہیں ہے۔ اس معاملے کا اصلی ملزم کوئی منجیت سنگھ ہے۔یہ پوری طرح غلط انسان کو ملزم سمجھ کر سزا دئے جانے کا معاملہ ہے۔ انہوں نے سربجیت پر ایک کتاب ’’Sarabjeet singh a mistakin of identity ‘‘ لکھی ہے۔ 26 جون 2012 ء کو اچانک سے پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے ذریعے سربجیت سنگھ کی پھانسی کی سزا معاف کرنے اور اسے چھوڑنے کی خبریں آنے لگیں تھیں لیکن 5 گھنٹے کے بعد ہی پاکستان اپنے موقف سے پلٹ گیا۔ کہا کہ سربجیت کی نہ تو رہائی ہوگی اور نہ ہی اس کی سزا کم ہوگی۔ جس شخص کی رہائی ہونی ہے اس کا نام سرجیت سنگھ ہے۔ مانا جاتا ہے کہ صدر زرداری کٹر پسندوں آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج کے دباؤ میں آکر جھک گئے اور اپنے فیصلہ پلٹ دیا۔ سربجیت کی رہائی پر پلٹنے والے پاکستان کے جھوٹ اویس شیخ نے سامنے لاکر رکھ دیا۔ انہوں نے سربجیت کی رہائی کے اعلان کے فوراً بعد سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ فیس بک پر کہا تھا سربجیت کی رہائی پکی ہے تاریخ ابھی طے نہیں ہوئی ۔ لیکن اگلے تین چار دن میں سربجیت کو سنگھ کو لیکر میں خود بھارت آرہا ہوں۔ کچھ گھنٹے پہلے پاکستان صدر کے ترجمان نے ٹی وی پر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ زرداری نے سربجیت سنگھ کی سزا معاف کردی ہے۔ پاکستانی جیلوں میں ہندوستانی قیدیوں کا کیا حال کیا جاتا ہے ،وہاں کے ایک سزا بھگتنے والے نے بتایا لاہور کی خطرناک لکھپت جیل میں قید رہے سورن لال کا کہنا ہے کہ جیل میں جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ بے رحمی سے پیٹتے ہیں ، چھوٹے چھوٹے کمروں میں بند کردیا جاتا ہے اور نچے لٹاکر بازو پکڑلیتے ہیں اور ٹانگیں اٹھا کر چار پانچ لوگ جوتوں سمیت پورے جسم کو روندتے ہیں۔ کمر کی چمڑی اتر جاتی ہے اور جسم ٹماٹر سے زیادہ لال کردیتے ہیں۔ سورن لال کے مطابق ایک بدقسمت اس چکر میں مارا جاتا ہے۔ ہندوستانی قیدیوں کو وہاں گھسیٹتے ہوئے ایک بیرک سے دوسرے بیرک میں چکر لگاتے ہیں اور مار مار کر گرادیتے ہیں۔ سورن لال کا کہنا ہے کہ میں سربجیت سے کئی بار ملا ،وہ بھلا انسان تھا لیکن اسکی جان کو خطرہ تھا۔ سورن لال کا کہنا تھا کہ ہمیں پتہ تھا کہ قصاب اور افضل گورو کی پھانسی کے بعد اس پر حملہ ہوگا۔ جس جگہ سربجیت تھا وہ سیل الگ ہے وہاں پر عام لوگ نہیں جاسکتے۔ کھانا تک خود پولیس کی ٹیم لیکر جاتی ہے ایسے میں اس پر حملہ ہونا ایک سازش ہے۔ پہلے ہندوستانی قیدی چمیل سنگھ مارا گیا تھا۔ مینڈھر میں جوانوں کے سر کاٹے گئے ،اب سربجیت سنگھ کو ماردیاگیا، یہ سب قصاب اور افضل گورو کی موت کا بدلہ ہے۔ یہ ہی بات کوٹ لکھپت جیل میں 12 سال کی سزا کاٹنے کے بعد لاہور سے جموں پہنچے ونود ساہنی نے کہا کہ جس قیدی کو موت کی سزا ہوتی ہے اسے الگ سیل میں رکھا جاتا ہے۔ وہاں پر کوئی قیدی نہیں جاسکتا۔ سربجیت پر قاتلانہ حملہ سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھا۔ ہماری خفیہ ایجنسیوں کے لوگ وہاں صرف مرغے کھانے بیٹھتے ہیں، ہندوستانی کی کوئی مدد نہیں کرتے۔مار مار کر ہندوستانی قیدیوں کی لاشوں کو صفائی کرمچاری کے حوالے کردیتے ہیں اور وہ اسے گٹر میں پھینک دیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جموں کے تین لوگوں کی موت ہوئی ہے ایک کا سنسکار میں نے کیا تھا۔ آتے وقت اس کی استھیاں لیکر آیا تھا۔ بہرحال سربجیت کو اس بے رحمی سے ماراگیا ا س کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ پاکستان ایک بار پھر اپنی اس سازش سے بے نقاب ہوگیا ہے۔ سربجیت کی موت پر ہمیں دکھ ہے ایک غلط فہمی کے چکر میں وہ مہرہ بن گیا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں