سربجیت کی جان کو خطرہ ہمیشہ تھا،حکومت ہند سوتی رہی

پنجاب کے سکھی ونڈ باشندے سربجیت سنگھ نے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں اپنی جان کو سنگین خطرے کے بارے میں پہلے سے ہی بتادیا تھا۔ کچھ ماہ پہلے لاہور سے اپنے وکیل کی معرفت بہن دلبیر کور کو بھیجے خط میں اس نے لکھا تھا کہ جیل میں میری جان کو ہر وقت خطرہ بنا ہوا ہے۔ مجھے شک ہے ’سلوپوائزن‘ دیکر یا حملہ کرکے پاکستانی مجھے جیل میں مار دیں گے۔ سربجیت کا اندیشہ صحیح ثابت ہوتا لگ رہا ہے۔ جمعہ کو لاہور کی سینٹرل جیل میں سربجیت سنگھ پر پانچ پاکستانی قیدیوں کے ذریعے اینٹ اور لوہے کی پلیٹ سے حملہ کیا گیا، جس میں وہ شدید زخمی ہوگیا اور وہ نزع میں ہے اور اسے وینٹی لیٹر پر رکھا گیا ہے۔ ڈاکٹروں نے ایتوار کو بتایا کہ سربجیت 49 سال کی حالت زیادہ نازک ہونے کی وجہ سے اس کا آپریشن نہیں کرپائیں گے۔پاکستانی ہائی کمیشن نے سربجیت کے خاندان کے چار افراد کو ویزا جاری کیاتھا تاکہ وہ لاہور کے ایک ہسپتال میں بھرتی سربجیت سے مل سکیں۔سربجیت کی بیوی سکھ پریت کور، بیٹیاں پونم اور سوپن دیپ اور بہن دلبیر کور ایتوار کو لاہور گئیں۔ انہیں 15 دن کا ویزا ملا ہے۔ سربجیت کی بہن دلبیر کور نے بتایا کے ان کے بھائی سربجیت پر اس قاتلانہ حملے کی خبر پاکستان کے ایک صحافی نے دی تھی۔ پاک سرکار نے دوپہر میں ہوئے واقعہ کے بارے میں جانکاری اس کے کنبے کو دینا مناسب نہیں سمجھا ۔ اپنے بھائی پر حملے سے دکھی بہن کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ حملے کے قصوروار افضل گورو کو پھانسی پر لٹکائے جانے کے بعد ان کے بھائی کی جان کو خطرہ تھا۔ افضل کی پھانسی سے ناراض پاکستانی قیدیوں نے کئی بار سربجیت کو جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔ میں نے یو پی اے چیئرپرسن سونیا گاندھی اور وزیر اعظم منموہن سنگھ سے اپیل کی تھی کہ وہ ہند وستانی ہائی کمیشن کے حکام کو سربجیت کی حفاظت سخت کرنے کے لئے کہیں۔ سربجیت کو 1990 میں پاکستان کے پنجاب میں ہوئے دھماکوں میں شامل ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان میں 14 لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ سربجیت کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ صدر آصف علی زرداری کی مداخلت کے چلتے اس کی پھانسی کی سزا لٹکی ہوئی ہے۔ پاکستان سے انسانی حقوق رضاکار انصار برنی نے کہا یہ سربجیت کو جیل میں مروانے کی سازش ہے تاکہ ان کا قتل ہو جائے اور رہا نہ کرنا پڑے۔ ان کی عمر قید کی میعاد نکل چکی ہے اس کے بعد اسے پھانسی نہیں دی جاسکتی۔ کوٹ لکھپت جیل میں4 ہزار قیدیوں کو رکھنے کی سہولت ہے لیکن فی الحال وہاں 17 ہزار سے زیادہ قیدی بند ہیں۔ اسی جیل میں 15 جنوری کو ہندوستانی قیدی چمیل سنگھ پر بھی حملہ ہوا تھا اور ان کی موت ہوگئی تھی۔ چمیل کو جیل کے سکیورٹی ملازمین نے مار پیٹ کر مار ڈالا تھا۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے حکومت ہند نے سربجیت کو بچانے کے لئے کوئی بھی کوشش نہیں کی۔ خاص طور پر جب 15 جنوری کو چمیل سنگھ کو اسی جیل میں قتل کردیاگیا تھاتو بھارت سرکار کو اس معاملے کو موثر ڈھنگ سے اٹھانا چاہئے تھا۔ ہندوستانی فوجیوں کے سر کاٹ دئے گئے، پاک جیلوں کے اندر ماردیا جائے، بھارت سرکار کی مجال ہے کہ وہ ایک لفظ بھی اپنے شہریوں کے لئے اپنے منہ سے نکالے۔ سربجیت کی موت ہوتی ہے تو اس میں بھارت سرکار بھی کم قصوروار نہیں ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!