29 سال بعد بھی84 ء کے فساد متاثرین کو انصاف کا انتظار
کانگریس پارٹی کے لیڈرسجن کمار کو 1984ء کے سکھ دنگوں کے معاملوں میں بری کئے جانے کے خلاف ناراضگی مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔بدھوار کو مظاہرین نے دہلی کی لائف لائن میٹرو کے پہئے جام کردئے۔ ناراض لوگوں نے سڑک پر اتر کر زور دار مظاہرے کئے۔ مظاہرین کا سلسلہ اکیلے دہلی میں نہیں دیکھنے کو مل رہا ہے بلکہ یہ دیش کے کئی حصوں میں جاری ہے۔ جمعرات کو بڑی تعداد میں لوگوں نے کانگریس صدر سونیا گاندھی کی رہائش گاہ 10 جن پتھ کے باہر مظاہرہ کیا۔دہلی گورودوار سکھ پربندھک کمیٹی کے پردھان منجیت سنگھ جی کے نے کہا کہ انصاف کیلئے یہ لڑائی جاری رہے گی۔ کورٹ سڑک اور کوئی پارلیمنٹ ہر جگہ مظاہرہ ہوگا۔ ہم اپنے سکھ بھائیوں کا درد سمجھ سکتے ہیں۔ انہیں 29 سال کے بعد بھی انصاف نہیں ملا۔ 84 ء کے فساد میں مرنے والوں کی صحیح تعداد شاید ہی پتہ چلے۔ پارلیمنٹ میں اٹل بہاری واجپئی نے بتایا تھا کہ ان کی واقفیت کے مطابق2733 سکھ فساد کا شکار ہوئے۔ اس پر حکومت نے کوئی تردید نہیں کی۔حقیقی تعداد 5033 ہے۔ پولیس نے ہزاروں لوگوں کو لاپتہ دکھا کر خانہ پوری کردی۔ تب سے اب تک یہ ہی خانہ پوری جاری ہے ۔ بہرحال بڑا سوال یہ ہے کہ عام طور پر عدلیہ کے فیصلے کو شک کے دائرے سے باہر نکالا جائے۔ ایک بڑا طبقہ اتنے وسیع پیمانے پر خفا کیوں ہے، کیوں انہیں شکایت ہے۔ یہ دراصل عدالتی فیصلہ نہیں بلکہ سرکاری دباؤ میں آیا فیصلہ ہے۔ اس کی ہمیں کچھ وجوہات صاف طور پر نظر آرہی ہیں۔پہلے جانچ ایجنسیوں کی مبینہ مختاری کی جو پول کوئلہ الاٹمنٹ معاملے میں ابھی سپریم کورٹ نے کھولی ہیں ،لوگوں کے شبہات کی اس سے تصدیق ہوتی ہے۔ دہلی پولیس اور سی بی آئی نے جانچ کے دوران ایسے سراغ چھوڑے ہیں جن سے ہائی پروفائل ملزمان کے بچ نکلنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ 16 سال بعد 2000ء میں ناناوتی کمیشن کی جانچ میں دہلی چھاؤنی کے دنگے کے معاملے میں سجن کمار کا نام پہلی بار سامنے آیا اور2005ء میں یعنی فسادات کے 21 سال بعد کمیشن کی سفارش پر ہی 6 دیگر ملزمان سمیت ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا۔اب نچلی عدالت کا فیصلہ آتے آتے 29 سال لگ گئے۔ جب الزام میں ہی اتنے جھول ہوں کہ معاملہ آنے میں دو دہائی سے زیادہ کا وقت لگ جائے تو جگدیش ٹائٹلر ہوں یا سجن کمار ہوں ہر معاملہ اسی طرح کے فیصلے سے زیادہ اور امید کیا کی جاسکتی ہے؟ یہ بھی کہا جاسکتا ہے جو ناراضگی اس مسئلے کو لیکر سڑکوں پر دکھائی پڑ رہی ہے عدالت کے تئیں اتنی نہیں جتنی جانچ کے ڈھلے پن اور اس کے طریقوں کے خلاف ہے۔ سب سے بڑا سوال جوابدہی کا ہے۔ اکثر 2002ء میں گجرات دنگوں کی بات ہوتی ہے۔ 27 فروری 2002ء کو سابرمتی ایکسپریس میں زندہ جائے گئے 59 کار سیوکوں کے رد عمل کے نتیجوں میں ہوئے فساد میں مرنے والوں کی تعداد 1260 تھی ان میں 790 مسلمان تھے،254 ہندو باقی دیگر تھے۔ ان فسادات کے سلسلے میں 27901 گرفتاریاں ہوئیں۔ ان میں 7656 مسلمان تھے، باقی تعداد ہندوؤں کی تھی۔ کل 19 کیس درج ہوئے ان معاملوں میں 184 ہندوؤں ،65 مسلمانوں کو ملا کر 219 کو سزا ہوئی۔ان میں منتری مایاکوڈنانی کو بھی سزا ہوئی۔ نریندر مودی کی سرکار و انتظامیہ نے پوری ایمانداری سے جانچ اور عدالت سے انصاف دلانے میں مدد کی۔ دوسری طرف 84ء کے دنگوں میں گجرات کے دنگوں سے پانچ گنا زیادہ بے قصور لوگ مارے گئے۔ آج 29 سال بعد بھی ایک وزیر کو بھی سزا نہیں ہوئی اور کسی بچے پولیس افسر اور ایم پی وزیر کی بات تو چھوڑو جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں متاثرہ خاندانوں کو اتنی دلچسپی اس میں نہیں ہے کے کونسا لیڈر لاپتہ ہے۔ انہیں ضرورت ہے جوابدہی کی۔ سرکار اور انتظامیہ نے کبھی بھی ایمانداری سے 84ء کے دنگوں کی جانچ صحیح طریقے سے نہیں کرائی۔ ہرمعاملے کو دبانے کی کوشش ہوئی۔ سکھ سنگت جانتی ہے کہ عدالت کا کام جانچ کرنا نہیں ہوتا وہ تو پیش حقائق اور ثبوتوں کو پرکھ کر اپنا فیصلہ لیتی ہے۔ متاثرین کی ناراضگی کی دوسری وجہ پوری عدلیہ مشینری کی سستی ہے۔ عدالت سے فیصلہ آنے میں 29 برس لگ جائیں تو معاملے کو ہائی کورٹ ، سپریم کورٹ تک پہنچنے اور آخری فیصلہ ہونے تک ممکن ہے نہ تو انصاف مانگنے والے بچیں گے اور نہ ہی سزا پانے والے ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں