کرناٹک اسمبلی چناؤ میں کانگریس کا پلڑا بھاری

بھاجپا پردھان راجناتھ سنگھ اور ان کی نئی ٹیم کے لئے پہلا امتحان کرناٹک اسمبلی چناؤ جیتنا ہوں گے، جو 5 مئی کو ہونے جارہ ہیں۔224 سیٹوں والی کرناٹک اسمبلی چناؤ کے بارے میں ایک پری پول سروے کے مطابق کانگریس سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرتی دکھائی دے رہی ہے۔ سروے بتاتا ہے کانگریس کو117 سے 129 سیٹیں ملنے کا امکان ہے جبکہ بھاجپا 39-49 سیٹوں تک سمٹ جائے گی۔ جے ڈی ایس 33-44 اور دیگر14 سے 22 سیٹیں پا سکتی ہے۔ سروے کے مطابق ایچ ڈی کمار سوامی کو 1890 ووٹر وزیر اعلی کے طور پر پسند کرتے ہیں جبکہ وی ایس یدی یروپا کو10 فیصد ، سدھو رمیا کو 9 فیصد اور ایس ایم کرشنا کو 7-8 فیصد،جگدیش شٹار کو6 فیصدلوگ پسند کرتے ہیں۔ IBN-7 اور CSDS کا پری پول سروے بتا رہا ہے کہ کرناٹک میں سرکار اور اپنی ساکھ بچانے کی جدوجہد میں لگی بھاجپا کو امید ہے کہ نریندر مودی کی طوفانی تقاریر اور دورے کے بعد پارٹی کی پوزیشن میں بہتری آئے گی۔ سا بق ومیر اعلی وی ایس یدی یروپا کی نئی پارٹی کے جی پی کے میدان میں اترنے سے بھاجپا کو تو نقصان ہوہی رہا ہے لیکن اتنا نہیں جتنا اندیشہ تھا۔ پارٹی کو لگتا ہے کہ اگر اس کی سرکار نہیں بن پائی تو وہ نئی سرکار کی تشکیل میں فیصلہ کن رول نبھا سکتی ہے۔ پارٹی کے نیتا چاہتے ہیں ایک دو دن میں نریندر مودی گجرات سے کرناٹک آجائیں تو پارٹی کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ دراصل بھاجپا نریندر مودی کو وہاں کے حالات میں داؤں پر نہیں لگانا چاہتی۔مودی بھی خود ایسا نہیں چاہتے ،صورتحال یہ بنی ہوئی ہے کہ بھاجپا نیتاؤں کی مشکل یہ ہے کہ اقتدار تک پہنچنے کے لئے اس کی راہ میں سبھی پارٹیوں کی رکاوٹیں ہیں۔ 8 مئی کو نتیجے کچھ بھی ہوں لیکن یہ بات طے ہے بھاجپا کے لئے جس ریاست میں جنوبی ہندوستان کا دروازہ کھلا تھا وہ آج اس کے لئے بند ہونے جارہا ہے۔ حالانکہ اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کے کانگریس کی ہی وہاں تاجپوشی ہوگی کیونکہ کسی کے پاس جیت کا جادوئی نمبر نہیں ہے یا یوں کہیں بھروسہ نہیں ہے۔ ایسے میں بھاجپا کے دو گروپ ہوں یا کانگریس یا پھر دیوگوڑا کی جے ڈی ایس دوسرے کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے۔ چار سال وزیراعلی رہے بی ایس یدی یروپا کو کرپشن کے الزام میں استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ انہوں نے بھاجپا چھوڑ کر کرناٹک جنتا پارٹی بنا لی۔ بلاری کی کوئلہ کانوں میں مافیہ ریڈی بھائیوں جنہوں نے اپوزیشن ممبران اسمبلی کو بھاجپا کے پالے میں لانے کے لئے تجوریاں کھولی تھیں ،اس بار وہ میدان سے باہر ہیں۔ بھلے ہی اس وقت ہو جیل میں ہوں لیکن ان کے اہم سپہ سالار وی ایس شری رامولو نے ضرور الگ پارٹی بنا لی ہے و بی ایس آر کانگریس۔ جناردن ریڈی کے ایک بھاری کروناکر بھاجپا کے ٹکٹ پر چناؤ لڑ رہے ہیں تو دوسرے بھائی سوم شیکھر شری رامولو کی پارٹی سے میدان میں ہیں۔ جناردن ریڈی سے جڑنے سے پہلے شری رامولو ایک کانگریسی لیڈر کے ڈرائیور ہوا کرتے تھے۔ بی ایس یدی یروپا کے وزیر اعلی بننے سے پہلے سیاست سے سنیاس لینے کا من بنا چکے دونوں بھلے ہی اب اپنے بوتے پر سیٹ نہ جیت پائیں لیکن بھاجپا کو کئی سیٹوں پر نقصان تو پہنچا ہی سکتے ہیں۔ بھاجپا کی بدحالی سے کانگریسیوں میں خوشی لازمی ہے لیکن پارٹی بھی الجھن میں ہے کے ابھی تک کانگریس نے کسی کو وزیر اعلی کے عہدے کا امیدوار اعلان نہیں کیا ہے۔ سدھورمیا اور پردیش کانگریس کے صدر جی پرمیشور دونوں خود کو اگلے وزیر اعلی کی طرح پیش کررہے ہیں۔ دونوں دھنواں دھار ریلیاں کررہے ہیں۔ پارٹی کے اس اندرونی مقابلے کے پیش نظر سابق وزیر اعلی ایس ایم کرشنا چناؤ پرچار سے دور ہیں۔ راہل گاندھی کی چناؤ ریلی میں کرشنادکھی دل سے سامنے آئے۔ اس چناوی تجزیئے نے ایک نیا نکتہ سابق وزیر اعلی ایچ ڈی کمار سوامی کی جنتادل سیکولر سے تال میل بنا لیا ہے۔ سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوگوڑا کے بیٹے کمار سوامی ایک مخصوص فرقے کے اسٹوڈنٹ لیڈر ہیں لیکن گھوٹالوں کی سیاہی سے وہ بھی نہیں بچے ہیں۔ کل ملاکر چناوی پوزیشن واضح نہیں ہے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کانگریس اور بھاجپا کے بیچ لڑائی میں کانگریس کا ہی پلڑا بھاری لگتا ہے۔چناؤ کے بارے میں ہم پہلے سے پیشگوئی نہیں کرسکتے ۔اب زیادہ دن انتظار نہیں کرنا پڑے گا18 مئی کو نتیجے آجائیں گے اور لوگوں کے سامنے اس ریاست کی تصویر صاف ہوجائے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!