مہاراشٹر کی مہایوتی سرکار میں بڑھتی ناراضگی !

باوجود اس کے مہاراشٹر اسمبلی چناو¿ میں مہایوتی اتحاد کو زبردست اکثریت ملی لیکن اتحاد میں ناراضگی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔پہلے تو بائیس نومبر کو چناو¿ نتیجے آنے کے بعد لمبی جدو جہد کے بعد 12 دن کے بعد دیوندر فڑنویس وزیراعلیٰ کی حلف لے پائے اس کے دس دن بعد کیبنٹ طے ہوئی ان کی حلف برداری ہوسکی ۔اب کیبنٹ میں محکموں کے بٹوارے کو لے کر نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے ۔راشٹر وادی کانگریس کے سینئر لیڈر چھگن بجھول نے پیر کو نئی مہایوتی سرکار میں شامل نا کئے جانے پر مایوسی ظاہر کی تھی اور کہا کہ وہ اپنے چناوی حلقہ کے لوگوں سے بات کریں پھر طے کریے گا کہ ان کی مستقبل کی راہ کیا ہوگی ۔وہیں شیو سینا ممبر اسمبلی نریندر موڈیکر نے مہاراشٹر کیبنٹ میں شامل نا کئے جانے پر ناراضگی ظاہرکرتے ہوئے پارٹی کے سبھی عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ۔دیوندر فڑنویس کی قیادت والی سرکار کے پہلے کابینہ توسیع میں اتوار کو مہایوتی کی اتحادی پارٹیوں بھاجپا ،شیو سینا ،این سی پی کے 19 ممبران اسمبلی نے حلف لیا تھا ۔کیبنٹ سے 10 سابق وزراءکو ہٹا دیا گیا ہے اور 16 نئے چہروں کو جگہ دی گئی ۔سابق وزیر چھگن بجھول اور این سی پی کے دلیپ وہاسے پاٹل و بھاجپا کے منتیور اور وجے کمار گوئل نئی کیبنٹ میں شامل نہیں کئے جانے سے نا خوش ہیں ۔اپنی مستقبل کے قدم کے بارے میں انہوںنے کہا کہ مجھے دیکھنے دیجئے اور اس پر غور کرنے دیجئے ۔سابق وزیردیپک کیسر کر کو بھی کیبنٹ میں شامل نہیں کیا گیا ہے ۔وہیں شیو سینا ممبر اسمبلی موڈیکر نے دعویٰ کیا کہ ان کی پارٹی کے چیف و نائب وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے نے انہیں کیبنٹ میں جگہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔موڈیکر شیو سینا کے ڈپٹی لیڈر ہیں اور مہایوتی اتحاد میں رشہ کشی جاری ہے ۔شیو سینا ایکناتھ شندے کے لئے اتحاد میں اپنے دوسرے نمبر کی پوزیشن ہے ۔سسٹم کو پچانا اور اپنے حمایتیوں سے قبول کرانا مشکل ہورہا ہے ۔نائب وزیراعلیٰ وزارت کے لئے وہ بے شک بھلے ہی راضی تو ہوئے ہوں مگر وزراءکی کم تعداد کا سوال آڑے آرہا ہے اور اب محکموں کے بٹوارے کو لے کر بھی آخر پارٹیوں میں رسہ کشی بڑھ رہی ہے ۔تینوں پارٹیوں میں چل رہی اس وقت غیر ضروری رسہ کشی کی ایک شکل کہیے ۔ممبران اسمبل کی بڑی تعداد کا دباو¿ لیکن مہاراشٹر کے وزراءکے لئے ڈھائی سال کے عہد کا نیا فارمولہ کتنا کارگر ثابت ہوتا ہے یہ وقت ہی بتائے گا ۔دیوندر فڑنویس کو وزیراعلیٰ بنانے میں جہاں دہلی کی لیڈرشپ کوپیچھے ہٹنا پڑا وہیں آر ایس ایس کی جیت ہوئی اور انہوں نے اپنی پسند کا وزیراعلیٰ بنوایا ۔فڑنویس کے سامنے اتحاد اور انچارجی دونوں کو چلانا اور اچھی سرکار دینے کی چنوتی ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!