اسد کے پاس 200 ٹن سونا!1.80 لاکھ کروڑ روپے !
سیریا کے تاناشاہ جن کا تختہ پلٹ دیا گیا ہے ۔ان کے بارے میں چونکانے والی معلومات سامنے آرہی ہیں ۔اسٹیل کے موٹے دروازے کے پیچھے کال کوٹھریوں کی قطاریں اور ان کے ٹارمر چیمبروں کی بات تو ہوتی رہی ہے ۔لیکن ان کے اثاثہ کی تفصیل ملنے سے اب سب چونک گئے ہیں ۔ایک بار بشر الاسد نے والد سے پوچھا کہ اقتدار کو مکمل طور سے کیسے مضبوط کیاجاسکتا ہے ۔تو والد حافظ الاسد نے جواب دیا کہ اپنی جنتا کو کبھی بھی پوری طرح خوش مت رکھو جب وہ تھوڑے ناراض رہیں گے تبھی وہ تمہاری طرف دیکھیں گے اور تمہیں ضروری سمجھیں گے ۔والد کی اس صلاح کوا س نے کچھ اس طرح اپنالیا کہ ان کے 24 سال کے عہد میں سیریا کی جنتا ہمیشہ ضرورتیں پوری کرنے کے لئے جدو جہد کرتی رہی ہیں ۔سعودی اخبار الہاب نے برٹس خفیہ سروسز نے ایم آئی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ سابق صدر اسد کے پاس قریب 200 ٹن سونا ہے اس کے علاوہ 16 ارب ڈالر اور پانچ ارب یورو ہے ۔جن کی روپے میں قیمت قریب قریب 1.80 لاکھ کروڑ روپے ہے ۔حالانکہ اسد اب دیش چھوڑ کر روس میں پناہ لے چکے ہیں ایسے میں سوا ل اٹھ رہے ہیں کیا وہ سب کچھ اپنے ساتھ لے گئے ہیں اور کتنا پیسہ چھوڑ گئے ہیں اس کا خلاصہ نہیں ہو پایا ۔بشر الاسد بچپن میں بہت خاموش طبیعت ،شرمیلے شخص کی شکل میںروس میں انہیں جاناجاتا تھا ۔اسد کی سیاست میں بالکل بھی دلچسپی نہیں تھی ان کی ایمیج کو مضبوط بنانے کے لئے والد حافظ الاسد نے انہیں ایک حکمت عملی کے تحت کرپشن انسداد محکمہ کا چیف بنایا ۔اسد نے اس دوران کئی بڑے حکام کو عہدے سے ہٹایا تاکہ ان کی ساکھ دبنگ حکمراں کی شکل میں سامنے آئے ۔انہیں مہنگی گاڑیوں کا شوق ہے ان کے قافلے میں اعلیٰ معیار کی کاریں شامل تھیں ۔بہرحال اسد کی پیدائش شام کی راجدھانی دمشق میں بشر الاسد کے گھرمیں ہوئی تھی ۔حافظ 29 سال تک سیریا کے صدر رہے۔ان کی پانچ اولادوں میں بشر تیسرے نمبر پر ۔شروع میں فوج اور سیاست سے دور رہ کر میڈیکل سیکٹر میں کیریئر بنانا چاہتے تھے ۔دمشق یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد میڈیکل میں خصوصیت کے لئے 1992 میں لندن چلے گئے ۔جنوری 1994 میں کار حادچہ میں ان کے بڑے بھائی اور اس وقت کے وارث کی موت ہو گئی تو انہیں واپس بلالیا ۔اور آزاد مانیٹرنگ گروپ سیرین نیٹورک ریکارڈ کے مطابق اس کےخلاف 2011 میں شروع ہوئے تحریک کے بعد پچھلی جولائی تک دیش کی جیلوں میں ٹارچر کی وجہ سے 15,102 موتیں ہوئیں ۔اندازہ ہے اس سال اگست تک 1 لاکھ تیس ہزار لوگ گرفتار کئے جا چکے تھے یا جبراً حراست میں لئے گئے تھے ۔ان کے دیش کی خفیہ ایجنسیوں کو غیر جوابدہی بتایا گیا ہے لیکن ہر تاناشاہ کا ایسا ہی حشر ہوتا ہے ۔مشکل سے دو تین ہفتے میں ان کا کھیل ختم ہو گیا۔اور راتوں رات انہیں بھاگناپڑا ایسے میں تاناشاہ کی لسٹ بہت لمبی ہے ۔جنہوں نے دیش کولوٹ لیا اور پھر بھاگنا پڑا۔اور شیخ حسینہ بھی تازہ مثال ہیں ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں