راہل گاندھی کو کتنا بڑا جھٹکا!

میں کانگریس کی مصیبت سمجھتا ہوں ۔برسوں سے ایک ہی فیل پروڈکٹ کو بار با ر لانچ کرتے ہیں ہر بار لانچنگ فیل ہو جاتی ہے اب اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ووٹروں کے تئیں ان کی نفرت بھی ساتویں آسمان پر پہونچ گئی ہے ۔دس اگست کو وزیراعظم نریندر مودی نے اپوزیشن کی عدم اعتماد تحریک کے دوران پارلیمنٹ میں کانگریس کے نیتا راہل گاندھی کو لیکر یہ بات کہی تھی ۔دراصل ایسا اس لئے کہا جاتا رہا ہے کیوں کہ راہل گاندھی کے کانگریس صدر رہتے ہوئے پارٹی 2019 کے لوک سبھا چناو¿ میں کوئی خاص کمال نہیں دکھا پائی ۔اس کے علاوہ کئی ریاستوں میں ہوئے چناو¿ میں یا تو کانگریس سرکار جاتی رہی یا اپوزیشن میں ہوتے ہوئے کوئی خاص کمال نہیں دکھاپائی ۔اس فہرست میں شمالی ہندوستان کی کئی ریاستیں ہیں جہاں حال ہی میں ہوئے اسمبلی چناو¿ اور کانگریس سے کچھ کرشمہ کی امید کی جارہی تھی لیکن راہل گاندھی کی چناوی کمپین اور فیور میں ہوا ہونے کے باوجود کانگریس کی ڈپلومیسی ناکام ہوئی ۔کانگریس پارٹی میں اب راہل گاندھی پارٹی صدر نہیں ہیں لیکن پارٹی تو گاندھی پریوار کے ارد گرد گھومتی رہی ہے ۔راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس اپنی سرکاریں گنوا چکی ہے ۔اور مدھیہ پردیش میں بھی اسے بی جے پی نے بری طرح ہرا دیا ہے ۔وہیں میزورم میں اسے صرف ایک شیٹ ملی ہے ۔حالانکہ تلنگانہ میں اس نے تاریخ رقم کرتے ہوئے بی آر ایس کو ہرا دیا ہے ۔تو اب سوال اٹھتا ہے کہ پانچ اسمبلی چناو¿ میں سے چار میں ملی ہار کیا گاندھی خاندان یا کہیں کہ راہل گاندھی کی ہار ہے ؟ راجستھان ،مدھیہ پردیش،چھتیس گڑھ اور تلنگانہ میں بی جے پی کے چناو¿ کی بات کریں تو اس میں وزیراعظم نریندر مودی آگے تھے جبکہ ریاست کے لیڈر اور دوسرے مرکزی لیڈر پیچھے تھے۔وہیں کانگریس کے چنا و¿ کمپین کی بات کریں تو اس میں ریاست کے مقامی لیڈر آگے تھے ۔اور راہل گاندھی بیک شیٹ پر تھے انہوںنے راجستھان میں تھوڑا کم پرچار کیا لیکن تلنگانہ میں پورا زور لگایا ۔مدھیہ پردیش ،راجستھان اور چھتیس گڑھ میں ساری کمپین کا انتظام کمل ناتھ ،اشوک گہلوت اور بگھیل پر چھوڑ دیا تھا ۔اس طرح دیکھا جائے تو الگ الگ ریاستوں میں کانگریس کے الگ الگ چہرے تھے تو کیا ان ہار کیلئے راہل گاندھی کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے ۔دوسری طرف کانگریس ہاری تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی لیڈر شپ پر لوگوں کا بھروسہ نہیں ہے اور لیڈر شپ کا مطلب ہے گاندھی پریوار ،سبھی ریاستوں میں کانگریس مقامی لیڈر چناو¿ لڑ رہے تھے ۔راہل نے پچھلے سال ستمبر میں جنوبی ہندوستان میں کنیہ کماری سے بھارت جوڑا یاترا شروع کی تھی ۔تقریباً 4ہزار کلو میٹر لمبی 137 دن کی اس یاترا میں انہوں نے ساو¿تھ سے نارتھ انڈیا کی یاترا کی تھی ۔اس یاترا کا اثر کرناٹک اور تلنگانہ میں تو نظرآیا لیکن ہندی زبان بولنے والی ریاستون میں دکھائی نہیں دیا ۔بیشک اس یاترا سے راہل کی شخصی شاکھ بدلی ہے اور لوگ ان کو سنجیدگی سے دیکھتے ہیں اور مانتے ہیں کہ وہ ایماندار ہیں لیکن انہیں پی ایم مودی کی ٹکر نہیں مانتے ۔راہل گاندھی کے کئی اشو اڈانی ذات ،پات مردم شماری اوندھے منھ گری ۔اور راہل گاندھی کہتے ہیں کہ وہ محبت کی دوکان چلا رہے ہیں لیکن یہ دوکان مدھیہ پردیش ،چھتیس گڑھ ،راجستھا ن میں اجڑ گئی ۔اس کے لئے ان کو ہار کے اسباب پر غور کرنا ہوگا ۔اور ہار کیلئے ذمہ دار سبھی متعلقہ لوگوں پر سخت کاروائی کرنی ہوگی ۔لیکن پارٹی کیلئے یہ بھی ضروری ہے اور اس میں راہل گاندھی کیلئے بھی ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟