نئے وزرائے اعلیٰ پر چلے کئی اور داو ¿ں!

صرف عمر اور ووٹ بینک نہیں ،بھاجپا نے تین نئے وزرائے اعلیٰ سے کئی اور داو¿ں بھی چلے ہیں ۔بھارتیہ جنتا پارٹی نے چھتیس گڑھ ،مدھیہ پردیش ،اور راجستھان میں وزرائے اعلیٰ کے انتخاب سے پہلے ماننا پڑے گا کہ اس نے سب کو چونکا دیا ہے ۔نریندر مودی امت شاہ اور جے پی نڈا کی رہنمائی میں بھاجپا پہلے بھی ایسا کرچکی ہے لیکن سوال ہے کہ آخر بھاجپا ایسا کیوں کرتی ہے ؟ اس سوال کے ساتھ ایک نہیں کئی اور جواب ہیں بھاجپا نے پھر ایم پی چھتیس گڑھ اور راجستھان میں چونکانے والے ایسے چہرے دئیے ہیں جن کے بارے میں کسی کو بھی تصور نہیں تھا اور نہ ہی ان کے ناموں کا کہیں تذکرہ تھا ۔بھاجپا درا صل ایک نہیں کئی ٹارگیٹ پر نظررکھتی ہے ۔سینئر لیڈرشپ اکثر معجزاتی طریقہ سے کام کرتی ہے ۔تین ریاستوں میں وزرائے اعلیٰ کا غیر متوقع انتخاب اس کی مثال ہے ۔چھتیس گڑھ میں ویشنو دیوسائی ،مدھیہ پردیش میں موہن یادو ،راجستھان میں بھجن لال شرما کا انتخاب ان واضح اور حیرت انگیز فیصلوں کے پیچھے ایک پیٹرن نظرآتاہے کہ کیا کسی کوپتہ تھا کہ 2001 میں کیشو بھائی پٹیل کے ممکنہ جانشین کی شکل میں کئی ناموں کا تذکرہ چل رہا تھا ۔تو نریندر مودی جیسے ایک پوشیدہ سنگھ ورکر کو گجرات کا وزیراعلیٰ بنا دیا جائے گا؟ اسی طرح ہریانہ میں منوہر لال کھٹر کے انتخاب میں بھی سب کو چونکایا تھا۔چھتیس گڑھ میں سائی ،ایم پی مین یادو ،راجستھان میں شرما کو شامل کرنے کو اسی حکمت عملی کی شکل میں دیکھا جانا چاہیے ۔ان میں یادو اور شرما کو ٹرائڈ اینڈ ٹسیٹو مقبول دعویداروں جیسے کہ شیوراج سنگھ چوہان ،وسندھرا راجے کو درکنار کرکے گدی سونپی گئی ہے ۔اگر ہم شوشل انجینئرنگ کی بات کریں تو چھتیس گڑھ میں سائی ایک قبائلی ہیں اور ان کے دو ڈپٹی او بی سی اروم ساو¿ اور برہمن وجے شرما اسی فرقہ سے ہیں ۔مدھیہ پردیش میں نائب وزیراعلیٰ راجیش شکلا ،اور جگدیپ دیوڑا بھی برہمن اور درج فہرست ذاتوں کے ہیں ۔جبکہ سی ایم موہن یادو او بی سی سے ہیں ۔مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ موہن یادو پڑوسی ریاست اتر پردیش کے لئے بھی ایک اشارہ ہو سکتے ہیں جہاںزیادہ تر یادو بھاجپا کو ووٹ نہیں کرتے ۔نریندر سنگھ تومر جو ایک راجپوت ہیں وہ بھی اسمبلی اسپیکر ہوں گے ۔راجستھا ن میں شرما ایک برہمن ہیں ان کے دو ڈپٹی راجپوت اور دلت ہیں ۔حالانکہ مختلف برادریوں کے چہروں کا توازن بٹھانے کا یہ طریقہ انوکھی بات نہیں بلکہ یہ تو منڈل کی سیاست میں شروع ہونے کے بعد شوشل انجینئرنگ کا استعمال کرنے والی پارٹی میں سے ایک ہی ہے ۔حالانکہ بھاجپا کے پاس ایک مصروف طاقت ہے اس کے پاس سرکار اور پارٹی میں عہدوں کے لئے چہروں کی کمی نہیں ہے ۔زیادہ تر پارٹیوں کے پاس امکانی لیڈروں کے تین ذرائع ہوتے ہیں کور ،اندرونی ذرائع ،باہری لوگ اور افسر شاہی یا کاپریٹ سیکٹر وغیرہ ۔ماضی گزشتہ میں سیاست سے دور رہے ہوں ایسے چہرے لئے جاتے رہے ہیں ۔بھاجپا کے پاس ایک اور ذریعہ ہے وہ ہے سنگھ پریوارہے ۔موجودہ وزرائے اعلیٰ عہدوں کے لئے امکانی سینئر دعویداروں پر نظرڈالتے ہیں ۔یوپی میں گورکھپور سے پانچ بار ایم پی رہے یوگی آدتیہ ناتھ بیشک سنگھ سے نا ہوں لیکن پارٹی کیڈر اور سنکھ دونوں میں بے حد مقبول ہیں ۔آسام میں ہیمنت بسوا شرما سبھی کانگریس سے ناراض ،کھٹر دیوندر فڑنویس سنگھ سے ہیں اکثر موجودہ لوگوں کو لانے میں خطرہ رہتا ہے ۔لیکن بھاجپا اعلیٰ کمان کاصاف طور سے ماننا ہے کہ مودی کا جادو راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کسی نقصان کی بھرپائی کر دے گا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!