کیا 2017کے حلف نامے کو واپس لیگا مرکز !

دہلی ہائی کورٹ نے جمعہ کو مر کزی سرکار سے یہ بتانے کیلئے کہاہے کہ کیا وہ اپنے 2017کے اس حلف نامے کو واپس لینا چاہتی ہے جس میں اس نے شادی شدہ بدفعلی کو جرم ڈکلیئر کرنے کی مخالفت کی تھی عدالت میں داخل حلف نامے میں مر کز سے کہا تھا ازدواجی بد فعلی کو جرم کی زمرے میںنہیں لایا جا سکتاہے کیوں کہ یہ شادی کے نظام کو کمزور کر سکتاہے جسٹس راجیو شکدھرر اور سی ہری شنکر کی بنچ نے ازدواجی بد فعلی کو جرم ڈکلیئر کرنے کی مانگ کو لیکر داخل عرضیوں پر سماعت کے دوران مر کزی سرکار نے اس بارے میں نوڈل افسران سے گائڈ لائن لینے کیلئے اور 31جنوری کو ہوئی سماعت پر اپنی رائے رکھنے کو کہا تھا بنچ نے یہ ہدایت تب دی جب عرضی گزار این جی او آر ٹی آئی فاو¿نڈیشن اور آل انڈیا ڈیموکریٹک وومنس ایسوسی ایشن کی طرف سے پیش کرونا نندی نے یہ صاف کرنے کی درخواست کی کہ کیا وہ مرکزی سرکار کے ذریعے اب تک داخل تحریری دلیل اور حلف ناموں کے حساب سے اپنا رخ اپنا یا مرکز اسے واپس لے رہی ہے ۔ اس پر جسٹس شکدھرنے ای جی شرما سے نوڈل افسر سے ہدایت لینے اور پیر کو ہوئی سما عت میں جج نے کہا کہ آخر آپ کیا چاہتے ہیں؟ آج یہ اہم ہے کیوں کہ مرکز نے 2017میں حلف نامے میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ اور مختلف عدالتوں نے پہلے ہی دفعہ 498Aکے بڑھتے بے جا استعمال کو دیکھا ہے اس حلف نامے میں سرکار نے کہا تھا کہ ازدواجی بد فعلی کو آئینی یا قانونی تشریح نہیں کی گئی جبکہ بد فعلی جرم کی آئی پی سی کی دفعہ - 375میں تشریح کی گئی ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟