جہاد الستان بنتا بنگلہ دیش !

بنگلہ دیش میں درگا پوجا کے دوران بھڑکے تشدد یہی ظاہر کرتا ہے کہ وہاں ہندوو¿ں سمیت دیگر اقلیتیں کتنی غیر محفوظ ہیں اور کیسے افواہ کی ایک چنگاڑی ان کے گھروں کو جلا سکتی ہے ۔تقریر کا پہلو یہ ہے کہ اصلاح پسند مانی جانے والی شیخ حسینہ کی حکومت اور ان کا انتظامیہ ہندوو¿ں پر ہو رہے تشدد کو بیس سے زیادہ ضلعوں تک پھیلنے سے نہیں روک سکیں ۔تشدد کی شروعات درگا پوجا کے دوران ایک پنڈال میں توہین اسلام کی افواہ سے ہوئی اور دیکھتے دیکھتے اسلامی کٹر پسندوں نے بہت سے مندروں اور پنڈالوں اور ہندوو¿ں کے گھروں پر حملے شروع کر دئیے ان حملوں میں مشہور اسکان مندر بھی نہیں بچ سکا ان حملوں میں چھ لوگوں کی موت ہوئی ہے ۔بتا دیں کہ بنگلہ دیش میں گزشتہ 9 برسوں میں قریب 37-21 حملے ہوئے ۔ایک اخبار ڈھاکہ ٹریبون میں لکھا ہے کہ یہ ڈیٹا ایک اہم حقوق گروپ این او ستیش سینٹر سے ملا ہے ۔اس کے مطابق 2021 پچھلے پانچ برسوں میں اب تک سب سے زیادہ خطرناک رہا ۔پچھلے پانچ برسوں میں ہندو مندروں ،مورتیوں اور پوجا مقامات پر توڑ پھوڑ اور آتش زنی کے کم سے کم 1678 معاملے درج کئے گئے اس کے علاوہ پچھلے تین برسوں میں 18 ہندو پریواروں پر حملے ہوئے یہ تعداد زیادہ ہو سکتی ہے کیوں کہ میڈیا صرف ان معاملوں کو کور کرتاہے جو سامنے آجاتے ہیں ۔2014 میں اقلیتوں کے 1201 گھروں اور اداروں میں بلوائیوں نے توڑ پھوڑ کی تھی ۔اس سال ستمبر کے آخیر تک 196 گھروں اور دوکانوں اور مندروں اور موتیوں کو بھی توڑا گیا تھا ۔پولیس کے ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل محمد قمر الزماں نے بتایا کہ افواہ پھیلانے والوں اور تشدد برپا کرنے والوں کے خلاف پورے دیش میں کاروئی جاری ہے ۔اور توڑ پھوڑ کرنے والے ہندو لڑکے کوبھی حراست میں لے لیا گیا ہے ۔درگا پوجا کے بعد ہندوو¿ں پر جاری حملوں کے سلسلے میں دیش کے مختلف حصوں میں کم سے کم 71 معاملے درج کئے گئے اس کے علاوہ قریب 450 لوگوں کو شوشل میڈیا پر افواہ پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے دیش میں 13 اکتوبر کو بھڑکے فرقہ وارانہ تشدد رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں ۔تشویش کی بات یہ ہے کہ خود شیخ حسینہ نے مانا ہے کہ درگا پنڈالوں پر ہوئے حملے پہلے سے منظم تھے ۔تو ایسے میں انہیں نہیں روکنے میں انتظامیہ کی ناکامی کہی جائے گی ۔یہ بھی سمجھنے کی ضروت ہے کہ ان حملوں میں شوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی افواہ نے چنگاری کا کام کیا ہے اس طرح یہ پہلی واردات نہیں ،بنگلہ دیش میں ہندو مخالف تشدد کے واقعات کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ۔بنگلہ دیش میں ہندو مخالف تشدد کے واقعات کے بارے میں مصنفہ تسلیمہ نسرین نے کہا کہ ان کا دیش اب جہادالستان بنتا جا رہاہے اور بنگلہ دیش سرکار اپنے سیاسی فائدے کے لئے مذہب کا استعمال کررہی ہے ۔اور مدرسے کٹر پسندی پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں ۔سبھی سرکاروں نے اپنے سیاسی فائدے کے لئے مذہب کا استعمال کیا ۔انہوں نے اسلام کو راج دھرم بنا دیا جس سے وہاں ہندوو¿ں اور وودھوں کی حالت قابل رحم ہو گئی ہے ۔شیخ حسینہ سرکار کو پوری سخطی کے ساتھ اس تشدد کو روکنے اور ہندوو¿ں سمیت تمام دیگر اقلیتوں کو پوری حفاظت مہیا کرائی جانی چاہیے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!