طالبان -آئی ایس کے درمیان جھگڑے کئی جڑ!
افغانستان سے امریکی فوضیوں کی واپسی کے بعد اسلامک اسٹیٹ وہاں بڑا خطرہ بن کر ابھرا ہے ۔طالبان سرکار کے سامنے دنیا بھر سے حکومت کو تسلیم کروانے کے ساتھ آئی ایس سے بھی دوہری چنوتی ہے ۔امریکہ کے ساتھ 2020 میں ہوئے معاہدے میں طالبان نے بین الاقومی گروپوں پر لگام کسنے اور افغانستان کی سرزمین دوسرے ملکوں پر حملوں کے لئے استعمال نہ ہونے دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن موجودہ حالات میں آئی ایس کے بڑھتے حملوں کے درمیان یہ صاف نہین ہو پا رہا ہے کہ طالبان اپنے اس وعدے پر کھرا کیسے اترے گا ۔واقف کاروں کا کہنا ہے کہ ویسے طالبان اور آئی ایس دونوں ہی اسلامک قوانین کے تحت کٹرپسند حکومت کے پیرو کار ہیں لیکن اس میں ایک بنیادی نظریاتی فرق کی وجہ سے دونوں کے درمیان یکسانیت ہے دراصل طالبان کہتا ہے کہ افغانستان کی سرحد میں اسلامک ملک بنا رہے وہیں آئی ایس پوری دنیا میں اسلامی حکومت چاہتا ہے یہ طالبان کے قومی نشانوں کے خارج کر تا ہے ۔کم وبیش لوگوں کا مانناہے کہ طالبان آئی ایس پر قابو پا سکتا ہے اس کے لئے انہوں نے امریکی ہوائی حملوں کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔ان کے مطابق آئی ایس کے لئے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اسے پاکستان ایران میں پناہ اور حمایت نہیں ملے گی ۔انتظامیہ پر پکڑ اور اتحادی سرکار سے آئی ایس پر جیت ممکن دہشت گردی سے انتظامیہ کے طرف بڑھتے طالبان کی کھچڑی سرکار پر بیان دینا ہوگا ۔ہزار ،شیعہ جیسی اقلیتوں کو بچانا ہوگا ۔انہوں نے تشدد جھیلا ہے اوراب آئی ایس بی نے نشانہ بنا رہا ہے ۔واقف کاروں کا خیال ہے کہ طالبان کے موقع ہے کہ وہ اقلیتوں کے ساتھ کھڑا ہو اور انتظامیہ پر پکڑ والی ساکھ پیش کرے تاکہ لوگوں کا جھکاو¿ آئی ایس کی طرف نہ ہو ۔بین الاقوامی کرائسس گروپ کے مشیر ابراہیم بہیش کا کہنا ہے کہ افغانستان مین حملے کرکے آئی ایس نے طالبان کو زبردست جھڑکا دیا ہے اورخطرہ کو درگزر کرنے کا وقت نہیں ہے آئی ایس کا فوری مقصد طالبان کو کمزور کر ملک کی حفاظت کرنے والی ساکھ کو توڑنا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ لوگوں اور دوسرے چھوٹے گوپوں کا اسے ساتھ مل رہا ہے ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں