احتجاج کرنا آتنکی ساز ش نہیں ہے !

دہلی ہائی کورٹ نے نئی دہلی فساد معاملے میں تلخ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے اختلاف کو دبا نے کی چنتا میں سرکار کی نظر میں احتجاج کرنے کو آئینی حق اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے بیچ کا فرق دھندلا ہوتا جا رہا ہے اگر یہ ذہنیت ایسی ہی بڑھتی رہی یہ جمہوریت کیلئے کالا دن ہوگا اور خطرناک ہوگا ۔ جسٹس سدھارتھ چندل وجسٹس انوپ کی بنچ نے غیر قانونی سرگرمی روک تھام ایکٹ (UAPA)گرفتار جے این کی طلبا نتاشہ نروال ، دیوانگنا ، کالتا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم آصف اقبال کو ضمانت دے دی بنچ نے 113صفحات 83972صفحات کے اپنے تین فیصلوں میں کہا، دہلی فسادات کی سازش کے معاملے میں ملزمان پر یو اے پی اے کے تحت جرائم میں کوئی پہلی نظر معاملہ نہیں پایا گیا ہے ضمانت کے خلاف یو اے پی اے کی سخت دفاع 43d( 5)ان ملزمان پر یہ نافذ نہیں ہوتی ہے اس لئے وہ ضمانت پانے کے حق دار ہیں بنچ نے کہا پولس کی چارج سیٹ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جسے لگائے الزمات کے پیش نظر یو اے پی اے کی دفعہ 15پندرہ کی روشنی میں امکانی دہشت گرد ، دفعہ 17کے تحت آتنکی حرکت کیلئے پیسہ اکٹھا کرنے و دفعہ 18کے تحت آتنکی حرکت کرنے کی تیاری کی شکل میں دیکھا جاسکے بنچ نے ملزم طالبات کی اپیل پر نچلی عدالت کے اس حکم کو خارج کر دیا میں جس میں انہیں ضمانت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا بنچ نے ضمانت پر 18مار چ کو اپنا حکم محفوظ رکھا تھا عدالت نے کہا کہ اس پر کوئی تنازع نہیں کہ انہوں نے سی اے اے کے خلاف ہورہے مظاہروں میں شرکت کی تھی ہمارا خیال ہے کہ احتجاج کا حق اخلاقی حق ہے عدالت نے کہا طالبات کے خلاف الزام ابھر کر سامنے نہیں آرہے ہیں ایسے میں انہیں جوڈیشیل حراست میں رکھنے کی بنیاد نہیں ہے دہلی پولس نے کہا کہ ہم فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کی بغاوت کو لیکر کئے گئے تبصرے کا بھی ذکر کیا عدالت نے کہا کہ سرکار اور پارلیمانی سرگرمیوں کے خلاف احتجاج جائز ہے ایسے احتجاج کے پر امن ہونے کی امید کی جاتی ہے لیکن ان کا قانون طے ادارے کے باہر جانا غیر معمولی نہیں ہے ایک بار ہم مان بھی لیں کہ طالبات نے آئین کے تحت ملے حقوق کی حد کو پار کیا ہے تب بھی وہ دہشت گردانہ سازش رچنے کے برابر نہیں ہے دیوانگنا اور نتاشہ پر الزام ہے کہ انہوں نے دوسرے سازشیوں کے ساتھ مل کر لوگوں کو بھڑکایا جس کے چلتے دنگا بڑھکا دہلی دنگوں نے کالتا پر چار اور نروال پر تین اور تانہا پر دو معاملے ہیں ۔ اب ان کے جیل سے چھوٹنے کا راستہ صاف ہوگیا ہے کہ انہیں دیگر معاملے میں پہلے ہی ضمانت مل چکی ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟