گوگل کو مات دیتے ہریدوار کے پنڈوکے بہی کھاتے!

اتراکھنڈ کی کمبھ نگری اور ہریدوار کی دنیا بھر میں مشہور ہرکی پوڑی کے پاس گھاٹ پرانے بنے گھروں میں پنڈوں کے بنی الماریوں میں کرینے سے رکھے گئے سینکڑوں برس پرانے بہی کھاتوںمیں درج نسلی اور اطلاعات انقلاب کے جدید ٹول گوگل کو ہی مات دیتے ہیں ۔ ہریدوار کے باشندے تقریباًدوہزار پنڈوں کے پاس کئی پیڈیوں سے اپنے میزبانوں کے نسلی دستاویز موجود ہیں اپنے متوفی رشتے داروں کریا کرم پر جانے والے لوگ یہاں آتے ہیں اور اپنے پروہتوں کے بہی میں اپنے پروجوں کے ساتھ اپنا نام بھی درج کروا لیتے ہیں یہ روایت تب سے چلی آرہی ہے جب سے کاغذ وجود میںآئے اس سے پہلے دھوج پتر پر نسل اس زمانے کی پرانی خط و کتابت ہونے کا ذکر ہے ہوا اب نابودہوگئی ہے یہاں کے مشہور پروہت پنڈت کوشل سکھولہ کے مطابق یہاں کے پنڈے ہریدوار کے ہی بنیادے باشندے بتاتے ہیں کاغذ کے پہلے ان کے پروج پنڈوں کو اپنے لاکھوں مہمانوں کے نام اور نسل و علاقے تک زبانی یاد رکھتے تھے جنہیں وہ اپنے بعد اپنی آنے والی پیڈی کو بتا دیتے تھے ۔ یہاں کے پنڈوں میں گاو¿ں ضلع اور ریاستوں کی بنیاد پر جانشین بنتے ہیں کسی بھی پنڈے کے پاس جانے پر وہ ممکنہ جانکاری دے دیتے ہیں کہ ان کے نسل کے کون کون لوگ ہیں کئی بار کسی شخص کی موت پر ان کی پراپرٹی سے متعلق آپسی جھگڑوں میں نسل درنسل کا فیصلہ بہی کھاتوں کی مدد سے ہی ہوتا ہے ان بہیوں کو دیکھنے باقاعدہ عدالت کے لوگ یہاں آتے ہیں جس کے مطابق عدالتیں اپنا فیصلہ کرتی ہیں ان بہی کھاتوں میں پرانے راجا مہاراجا سے لیکر عام آدمی کی نسل درج ہے ۔ پنڈت کوسل سکھولا بتاتے ہیں کہ کمپیوٹر دور میں ان قدیمی بہی کھاتہ کہ اہمیت کم نہیں ہوئی ہے کیونکہ ان بہی کھاتوں میں ان کے پروجوں کی دستی تحریری باتیں ہیں اور دستخط درج ہوتے ہیں جن کی اہمیت کسی بھی شخص کیلئے کمپیوٹر کی بے جان پرنٹ سے زیادہ یقینی ہوتی ہے ان کا کہنا ہے جہاں ان کی آنے والی پیڈیاں دیگر کاروبار میں جار ہی ہیں وہیں کچھ پڑھے لکھے نوجوان یا ریٹائر کے ہونے کے بعد سرکاری ملازم اپنی روایتی گدی سنبھال رہے ہیں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!