مختار کا کوئی بدمعاش زندہ نہیں رہے گا !

چتر کوٹ جیل میں ہوئی گینگ وار کسی فلمی کہانی سے کم نہیں ہے انشول دکشت اور سمت دکشت نے مقیم کالاکے بیرک میں گھستے ہی فرقہ خاص کے بدمعاش کے زندہ رہنے کی بات کہتے ہوئے اسے گولیوں سے بھون دیا ۔اس سے پہلے انشو نے پریڈ کے دوران مقیم کو یہ کہتے ہوئے گولیوں سے بھون ڈالا کہ مختار کا خاص کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا ۔کچھ دیر بعد انشو انکاو¿نٹر میں پولیس کی گولیوں سے مارا جاتا ہے ۔دراصل صبح قریب 10 بجے انشو بیرک سے نکلتا ہے وہاں تعینات سکورٹی ملازمین سے اس نے کہا کہ وہ پی سی او جا رہا ہے کسی کو فون کرنا ہے ۔تب کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا کرنے والا ہے ۔اس وقت اس کے پاس پسٹل تھی ایک بڑے پولیس افسر نے بتایا میروز کو دیکھتے ہی انشو نے اس پر پسٹل تان دی ۔اس نے کہا کہ تم لوگوں نے بہت دہشت مچا ئی ہے ۔اب مختار انصاری کا کھیل ختم ہو چکاہے اس کا کوئی بھی گرگا زندہ نہیں رہے گا۔تب تک میروز کچھ سمجھ پاتا انشول نے اس پر گولیاں داغ دیں ۔گولیوں کی آواز سے وہاں بھگ دڑ مچ گئی کچھ ہی سکنڈ بعد وہ عارضی بیرک میں پہونچا جہاں پر مقیم کالا کو پکڑ لیا اس سے کہا کہ تمہارا انتظار تھا ۔مختار کا کوئی بدمعاش زندہ نہیں رہے گا کھیل ختم فوراً مقیم کو بھی گولیوں سے بھون دیا ۔مقیم کالا سمیت سات مئی کو ہی چترکوٹ جیل میں منتقل کیا گیا تھا ۔کورونا پروٹوکول کے مطابق وہ عارضی جیل میں کوارنٹائن تھا ۔کوارنٹائن کا وقت پورا ہونے کے بعد اس کو بھی ہائی سکورٹی بیرک میں شفٹ کیا جانا تھا ۔سوال یہ ہے کہ جیل میں ایک بدمعاش کے پاس اتنا خطرناک ہتھیار کیسے پہونچ گیا کہ وہ جیل انتظامیہ کے قرضہ میں نہیں آرہا تھا چونکہ انشو دکشت اس جیل میں پہلے ہی سے تھا ۔، ایسے میں مانا جا سکتاہے کہ جیل کے حکام کی ملی بھگت سے اس کے پاس ہتھیار پہونچے کیسے ہوں گے ۔یہ واردات بدمعاش سرغنہ سے سیاست داں بنے مختار انصاری کے گرگوں کے درمیان بالا دستی کی لڑائی لگتی ہے ۔انشول دکشت مختار انصاری کا شارپ شوٹر تھا تو مہروز مشرقی اتر پردیش میں مختار کا معاون تھا ۔جس کا انشول کے ساتھ جھگڑا تھا ۔جبکہ وہ دو لاکھ کا انعامی بدمعاش تھا ۔مقیم کالا مغربی اتر پردیش میں دہشت کی علامت تھا جس کے خوف سے تاجروں کی ہجرت شروع ہوئی تھی ۔غور طلب ہے کہ مختار انصاری کے گرگوں کے کیرانہ جیل میں خونی جھڑپ ہوئی تھی جب اترپردیش سرکار کی کوششوں کے بعد مختار کو پچھلے مہینہ ہی پنجاب سے لاکر صوبہ کی باندا جیل میں میں رکھا گیا ،جبکہ اس کے رشتہ دار اتر پردیش کی جیل میں اس کے مارے جانے کا اندیشہ جتا چکے ہیں ۔یہ اندیشہ بے بنیاد نہیں ہے ۔جولائی 2018 میںمافیہ منا بجرنگی کی باگپت ضلع جیل میں ہتھیا کر دی گئی تھی ، تو شاطر بدمعاش سرغنہ وکاس دوبے کو پچھلے سال اجین سے اتر پردیش لاتے ہوئے مڈبھیڑ میں مار گرایا تھا اس طرح کے واقعات گڈ انتظامیہ کے نام پر دھبہ ہے ، جن پر لگام لگانا انتہائی ضروری ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!