اسرائیل -حماس جنگ فوراً رکنا چاہئے !
پچھلے قریب ساتھ آٹھ دنوں سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان سبھی چھڑی خطرناک لڑائی بڑھتی ہی جا رہی ہے اسرائیلی فوج نے کہا اس نے غزہ میں حماس کے ایک سینئر لیڈر کے گھر پر حملہ کیا ہے غزہ سے اسرائیل میں ہوائی حملے اور راکیٹ داغنے کے قریب ایک ہفتے بعد یہ حملہ کیا گیا ان ہوائی حملوں میں 42سے زیادہ لوگوں کی موت ہونے کی خبر ملی ہے ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں ان کے علاوہ پچاس لوگ زخمی ہوئے ہیں پچھلے ایک ہفتے میں یہ اسرائیل کا غزہ پر سب سے بڑا حملہ ہے اسرائیل نے دو تین دن میں تیسری مرتبہ حماس کے کسی بڑے لیڈر کے گھر پر بمباری کی اس کے علاوہ پناہ گزیں کیمپ اور کثیر منزلہ عمارت کو تباہ کردیا ۔ جواب میں حماس نے بھی اسرائیل پر راکیٹ حملے جا ری رکھے پچھلے ایک ہفتے میں غزہ میں 188فلسطینی مارے گئے ہیں جبکہ 1230فلسطینی زخمی ہوئے ہیں اسرائیل میں دس لوگوں کی موت ہوئی ہے غزہ کی طرف سے اسرائیل پر ایک ہفتے میں 2500راکیٹ داغے گئے ہیں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اینٹونی گٹریس اس اسرائیلی حملے سے بے حد پریشان ہیں جس میں غزہ شہر میں ایک اونچی عمارت تباہ ہوگئی اس میں کئی بین الاقوامی میڈیا کے دفاتر اور رہائشی مقام تھے اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن وزارک نے کہا سکریٹی جنرل زخمی عام آدمیوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے اس سے بہت مایوس ہیں انہوں نے سبھی فریقین کو یاد دلایا ہے غیر فوجی شہریوں اور میڈیا اداروں کو ادادھند نشانہ بنایا گیا جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور ہر قیمت پر اسے روکنا چاہئے اگر اس جنگ کو فوراً نہیں روکا گیا تو مغربی ایشای کا پورہ علاقہ مکمل جنگ کی زد میں آسکتا ہے مغریب ایشیا میں امریکہ کا اہم ترین رول رہا ہے لیکن موجودہ لڑائی کے دوران وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہیں حالانکہ جنگ کی شروعات میں امریکی صدر نے یہ کہا تھا کہ اسرائیل کو اپنی سر زمین کو حفاظت کر نے کا پورہ حق ہے بائیڈن کی ڈیمو کریٹ پارٹی کے ترقی پسند نظریہ رکھنے والے لیڈروں نے فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کی ہے ۔ سماج کے کچھ طبقوں میں بلیک لائینس مینٹ کی طرز پر فلسطین لائیو میٹر کی شروعات کی گئی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ ، امریکہ پارلیمنٹ اور مین اسٹریم میڈیا اور عالمی اداروں پر یہودیوں کی بالا دستی ہے اس دباو¿ کے سبب کوئی بھی امریکی صدر اسرائیل کے خلاف سخت پالیسی اپنانے کا خطرہ مول نہیں لے پاتا بین الاقوامی برادری کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس جنگ میں مداخلت کرے اور اس نئی جنگ کو ختم کرانے کی کوشش کرے نہیں تو یہ جنگ پورے وسطی مشرق میں پھیل سکتی ہے ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں