ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج پھر بن سکیں گے جج!
دیش کی عدلیہ کی تاریخ میں ممکنہ طور پر پہلی بار دیش میں ہائی کورٹوں میں ججوں کی پھر تقرری ہوگی ۔سپریم کورٹ نے آئین کی دفع 224A کے تحت عارضی ججوں کی تقرری کا راستہ صاف کر دیا ہے ۔ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج دو سے تین سال تک دوبارہ جج کی ذمہ داری حاصل کرسکیں گے ۔چیف جسٹس شرد اروند بووڑے اور جسٹس سندے کشن کال اور جسٹس سوریہ کانت کی بنچ نے صاف کیا تھاکہ اگر ہائی کورٹ میں خالی جگہوں کی تعداد 20 فیصد سے زیادہ ہے تو ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صدر جمہوریہ سے الگ سے جج کی تقرری کی سفارش کر سکتے ہیں ۔ایک تقرری دو سے تین سال کی ہوگی ۔ایڈھاک جج کو ہائی کورٹ کے جج کے لئے طے تنخواہ ملے گی اگر الگ جج کے لئے سرکاری رہائش کا انتظام نہیں ہو پاتا ہے تو اسے قواعد کے مطابق ہاو¿سنگ بھتہ دیا جائیگا ۔سپریم کورٹ نے لوگ پرہیری بنام بھارت سرکار کے معاملے میں یہ فیصلہ دیا سپریم کورٹ نے کہا اگر التوا معاملوں کی تعداد بڑھ رہی ہے تو ایسے معاملوں کو نمٹانے کے لئے چیف جسٹس اپنے آئینی اختیارات کا استعمال کر سکتے ہیں چیف جسٹس یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہائی کورٹ میں التو مقدموں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور ان کو نمٹانے کے لئے ریگولر تقرری نہیں ہوئی تو آئین کی دفع 224A کے تحت صدر جمہوریہ سے الگ سے تقرری کی اجازت حاصل کر سکتے ہیں اس نے کہا نہ صرف ریٹائرڈ جج ہی نہیں بلکہ چھٹی پر جانے کے دہانے پر کھڑے ججوں کو بھی عارضی طور پر جج مقرر کیا جا سکتا ہے ۔تقرری کے وقت جج کا پرانہ ریکارڈ دیکھا جائیگا اگر اس نے اپنے عہد میں مقدموں کو تیزی سے نپٹارہ کیا ہے تو اسے ترجیح دی جائے گی ۔ایک ہائی کورٹ میں دو سے پانچ جج عارضی طور سے مقرر کئے جا سکتے ہیں سپریم کورٹ نے کہا ہائی کورٹ میں ججوں کی چالیس فیصدی اسامیاں خالی پڑی ہیں اور 25 ہائی کورٹ میں ججوں کے لئے 1080 اسامیاں منظور ہیں لیکن ابھی 664 جج کام کررہے یہں 416 اسامیں خالی پڑی ہیں 196 ججوں کی تقرری کا پروسز جاری ہے ۔220 کی سفارش کی جانی باقی ہے ہائی کورٹ کالیجیم 45 ججوں کی تقرری کی سفارش چھ ماہ پہلے کر چکا ہے جو مرکزی سرکار کے پاس چھ مہینہ سے لٹکی ہوئی ہے ۔ابھی تک اس نے کوئی فیصلہ نہیں لیا ہے یہاں تک کہ سپریم کورٹ کالیجیم ججوں کے لئے چھ نامون کی سفارش بار بار کر چکے ہیں اس پر مرکز نے کوئی فیصلہ نہیں لیا جبکہ کالیجیم کے دوبارہ سفارش کرنے پر حکومت جج مقرر کرنے کے لئے مجبور ہے ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں