کسانوں کی تشویش کا رپریٹ سکنجے سے ہے!
پارلیمنٹ میں پاس زرعی بلوں کے خلاف پورے دیش کے کسان تحریک پر اتر آئے ہیں مختلف کسان انجمنوں کے چکہ جام کی اپیل اور اور سیای پارٹیوں سے ملی حمایت کے بعد دیش بھر کے کسان سڑکوں پر اتر آئے دلی، اتر پردیش ، پنجاب ، ہریانہ سے لیکر مہارشٹر اڈیشہ،مغربی بنگال ، بہار ، مدھیہ پردیش اور تمل ناڈو کرناٹک سمیت سبھی ریاستوں میں کسانوں نے مظاہرہ کر چکہ جام کیا۔کسان تحریک کے چلتے ریلوے نے بھی اپنی ٹرینیں منسوخ کر دی تھی اور کچھ کے روٹ بدل دیئے گئے ۔وزیر اعظم کہتے ہیں تینوں زرعی قانون کسانوں کا مستقبل بدل دینگے پارلیمنٹ میں سرکار چاہتی تو بغیر بحث کے پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیتی لیکن اب یہ بل پاس ہوکر قانون بن جائیں گے اگر قانون دیش کے 80کروڑ کسانوں کی قسمت بدلنے والی ہے تو کیا جمہوریت میں اسے بہتر انتظام نہیں کہا جاتا ایشو جنتا کے رائے سے آئے اور پارلیمنٹ میں مفصل بحث ہوتی مسئلا ایم ایس پی کا نہیں بلکہ کسانوں پر کارپوریٹ شکنجہ کے ہے اپوزیشن پارٹیاں تو ایک ہی فریقی ،مورد الزام ہے لیکن زرعی ماہرین بھی نہیں سمجھ رہے ہیں کہ خود ساختہ کسان مفاد میں بنائے گئے تین انقلابی قوانین کے بعد کسی طرح کارپوریٹ مفاد اور دیش کی زرعی معیشت کو اپنے ہاتھوں میں کٹپتلی بنا سکتے ہیں اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کسانوں کے لئے یہ قانون وردان ثابت ہوں بشرطہ کہ سرکاری قانون سہولت لائے تاکہ کم سے کم طے قیمت پر خرید کا سسٹم جاری رہے۔ کسانوں سے پرائیوٹ کاروباری اس قیمت سے نیچے کی خرید کا سمجھوتا نہ کریں اور تنازع کا نپٹارا سیدھے عدلیہ کرے نہ کی انتظامیہ کے افسران ۔ اگر ریاستی سرکاریں زرعی پیداوار انجمنیں بھی مرکز کے جذبہ کو محسوس کرکے زرعی پیداوار کی فروخت میں تعاون کرنے لگیں تو کسانوں کی قسمت بدل سکتی ہے کیونکہ پرائیویٹ سرمایہ کار اس میں پیسہ اور تکنیک کا استعمال کرے گا جس سے پیداوار بڑھے گی لیکن دوسرا خطرہ ہے مال نے نارتھ انڈیا کی چار بڑی ریاستوںمیں کچھ کارپوریٹ گھرانے مل کر کسانوں سے گیہوں کی کھیتی کے بھاو¿میں معاہدہ کرتے ہیں تو ظاہر ہے کسان دیگر فصلوں کو چھوڑ کر صرف گیہوں بونا شروع کردیں گے ۔ اور ان کارپوریٹ گھرانوں کو پہلے سے ہی کیسی فصل ہوگی اس کا اندازہ رہے گا کہ مغربی اتر پردیش میں اس مرتبہ آلو کہ قلت ہو گی مدھیہ پردیش میں سویا بین کہ لہذا وہ ان زرعی اجناس کو پہلے سے خرید کر رکھ لیں گے اور با زار کو اپنے حساب کنٹرول کر لیں کیونکہ تیسرا قانون ذخیرہ پر کنٹرول ختم کر رہا ہے پھر زرعی سائنس کے اصول کے مطابق کھیتی میں زیادہ کیمیا ئی کھادوں کے استعمال کے ساتھ وہ پیداوار بھی بھلے ہی بڑھا دے لیکن زمین کی پیداواری طاقت گھٹتی ہے کیا کارپو ریٹ مفاد میں اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا ؟طویل مدت زراعت کے لئے کھیت میں فصلوں کا بدلنا روٹیشن یا طریقے میں تبدیلی کے لئے کسانوں سے معاہدہ کرتے وقت کارپوریٹ گھرانے وہ ذاتی مفاد کے بدلے کاروباری مفاد پر دھیان رکھیں گے؟ کسان خاص کر چھوٹے اور درمیانی کسان کو وہی بوئے گا جو وہ چاہے گا کیونکہ دام اسے زیا دہ ملنے کی گارنٹی ہوگی لیکن کھیت کی حالت کچھ سالوں میں بد تر ہو جائے گی اور زرعی اجناس کی قیمتیں ان گھرانوں کی داسی بن جائےںگی ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں