درندگی کی شکار بٹیا زندگی کی جنگ ہار گئی ،نربھیا کی ہوئی یاد تازہ

درندگی کی شکار ہوئی اتر پردیش کے شہر ہاتھرس کی بیٹی دہلی کے صفدر جنگ اسپتال میں زندگی کی جنگ ہار گئی 14ستمبر کو درندوں نے اجتماعی آبرع ریزی کر اس کا گلا دبا کر مار ڈال نے کی کوشش کی تھی تب اسے مرا ہوا سمجھ کر درندے چھوڑ گئے تھے متاثرہ لڑکی بول نہیں پا رہی تھی اس کے گلے میں تین فکچر تھے اور وہ کھیت میں بیہوشی کی حالت میں ملی تھی اس کے بعد اسے علی گڑھ کے جواہر لال نہرو میڈکل کالج اسپتال میں داخل کریا گیا تھا وہاں طبیعت بگڑنے پر پیر کو ہی دہلی کے صفدر جنگ اسپتال میں علاج کے لئے لایا گیا جہاں اس نے منگل کے روز صبح 3بجے دم توڑ دیا واردات کے بعد سے وہ بول نہیں پار ہی تھی اشاروں میں بتا تی رہی پچھلی22ستمبر میں جب اس کا بیان لیا گیا تو پولیس نے چارو ملزمان سندیپ ، رامو ، لوکش ،روی کو گرفتار کرلیاہے متا ثرہ لڑکی کے والد نے کہا کہ قصور واروں کو جلد سے جلد پھانسی ہو وہیں ہاتھرس میں متاثرہ بیٹی کی موت کے بعد لوگوں کا غصہ پھوٹ پڑا منگل کی دوپہر کانگریسی ورکروں نے وجے چوک پر مظاہرہ کیا جہاں سے پولیس نے 14عورتوں سمیت 36لوگوں کو حراست میں لیا ان میںدہلی پردیش کانگریس کی مہلا صدر ممتا دھون بھی شامل ہوئیں ۔ جب لڑکی اپنی ماں کے ساتھ کھیتوں کی طرف جانوروں کے لئے چارہ اکٹھا کرنے گئی تھیں وہیں ماں سے تھوڑا لگ ہوتے ہی ملزمان نے اسے کھینچ لیا اور اس بربریت کی واردات کا انظام دیا ۔ یہ ایک ایسی اکیلی واردات نہیں ہے لیکن اس واقع میں جرم کی جو نوعیت ہے وہ کسی بھی سنجیدہ انسان کو جنجھوڑ دینے میں کافی ہے لڑکی سماجی طور سے دلت تھی اور ملزم اونچی ذات سے تعلق رکھتے ہیں ۔یہ سمجھنا مشکل ہے کہ کیا دیہی علاقوں میں کمزور طبقے سے ہونا ہی جرم کی شکار ہونے کے حالات بنا دیتے ہیں ؟کیا وجہ ہے کہ جرم کو انظام دینے والے ملزمان کو یہ سب کرنے سے پہلے ایک بار سوچ لینا چاہئے تھاکہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔ اس واردات سے نربھیا کانڈ کی یاد تازہ ہو گئی ایسے درندوں کو موت کی سزا ہونی چاہئے نربھیا کے قصور واروں کو پھانسی پر لٹکایا جانے سے امید بندھی تھی کہ ایسے واقعات پر روک لگے گی ۔ مگر دکھ کے سے کہنا پڑتا ہے جانوروں کی نظریہ رکھنے والے درندوں کو آج بھی کوئی ڈر نہیں ہے ۔ بد قسمتی یہ بھی ہے کہ جس پولیس محکمے کو واردات کی ابتدائی اطلاع ملتے ہی سر گرم ہوکر کاروائی کرنی چاہئے تھی اس نے شروعات میں صرف قتل کی کوشش کا مقدمہ درج کیا تھا اور اس پر الزام یہ بھی ہے کہ اس نے معاملے کو دبانے کی کوشش کی ۔متاثرہ کے بھائی نے بتایا کہ 10دن بعد بھی کوئی کاروائی نہیں کی گئی اس درمیان ملزم پریوار کو دھمکی دیتے رہے جب بربریت آمیز جرم کی شکار ہوئی لڑکی نے سرکل آفسر کو کسی طرح اپنے ساتھ ہوئی درندگی کے بارے میں اشاروں میں بتایا تب جاکر اجتماعی آبروریزی کی دفاع جوڑی گئی۔ یوپی پولیس کا یہ رویہ کوئی حیرانی نہیں پیدا کرتا ہے کیونکہ آبرو ریزی اور قتل جیسے معاملوں میں عام طور پر کمزور طبقوں کے متاثرین کو اکثر یہی جھیلنا پڑتا ہے۔ دہلی میں نربھیا کانڈکے بعد جو سماجی سیاسی بیداری دیکھنے کو ملی اس سے یہ امید بنی تھی کہ اب شاید دیش کی عورتوں ویسی ٹریجڈی سے نہیں گزر نا پڑے لیکن افسوس اس کے بعد بھی زمینی سطح پر عورتوں کی سیکورٹی کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!