رائے دہندگان نے نفرت کی سیاست کو مسترد کیا

غیر ملکی میڈیا میں عام آدمی پارٹی کی جیت اور بھاجپا کی ہار کی خبریں چھائی رہیں اور انہوںنے مانا کہ رائے دہندگان نے نفرت کی سیاست کو مسترد کیا ہے ۔وہیں وزیر اعظم نریندر مودی کو اشارہ کیا ہے کہ انہیں پارٹی پر اپنا اثر بڑھانے اور ورکروں کو خود قابو کرنے کی کوشش کرنی چاہیے دوسرے الفاظ میں وہ پارٹی اور ورکروں کو امت شاہ کے بھروسے اب نہیں چھوڑ سکتے ۔دی نیویارک ٹائمس نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ نریندر مودی کی راشٹروادی پارٹی کو ایک علاقائی سیاسی پارٹی نے ذبردست شکست دے دی ہے اسے مودی کی پالیسیوں پر فیصلے کی منفی کی شکل میں دیکھا جا رہا ہے ان پارلیسیوں میں ملک کے اندر مسلم مخالف سی اے اے بھی شامل ہے ۔دراصل مودی کے کئی پالیسیوں کو لے کر دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال اپنی ناراضگی جتا چکے ہیں ۔دہلی کی عآپ سرکار کی تعلیم اور صحت اور بجلی پانی کی پالیسیوں کو لوگوں میں زبردست حمایت دی ہے بھاپا نیتاﺅں کا قومی اشوز پر دہلی چناﺅ لڑنے کی حکمت عملی ناکام ہو گئی ہے اور عوام نے دکھایا ہے ک ریاست کے چناﺅ میں اسے مقامی اشوز میں دلچسپی ہے ۔ناکہ قومی مسئلوں پر یہی وجہ ہے کہ لوک سبھا چناﺅ میں مودی نے دہلی کی ساتوں سیٹیں جیتی تھیں لیکن پارٹی اب اسمبلی چناﺅ ہار گئی ۔پاکستان کے دو اخباروں نے دہلی اسمبلی چناﺅ پر رائے زنی کی ہے ۔انگریزی اخبار ایکسپریس ٹری بیون نے لکھا ہے کہ شہری ترمیم قانون مودی کو لے ڈوبا یہ عنوان لگایا گیا ہے اخبار لکھتا ہے کہ دہلی اسمبلی چناﺅ میں عام آدمی پارٹی نے مودی کی بھاجپا کو تیسری مرتبہ شرمناک شکست دی ہے ۔انگریزی اخبار ڈان نے لکھا کہ سی اے اے کو پارلیمنٹ سے پاس کرانے کے بعد مودی کے لے دہلی چناﺅ پہلی چنوتی تھی اور اس کو بھنانے کے لئے پارٹی نے جارحانہ چناﺅ پرچار بھی کیا لیکن لوگوںنے اس پر توجہ نہ دی ۔ہار بھاجپا کے لئے پچھلے دو برسوں میں کئی ریاستوں کے چناﺅ سے مل رہی ہے ۔شکست کی تازہ کڑی ہے دہلی چناﺅمیں ہار ۔وہیں خلیج ٹائمس نے لکھا کہ حکمراں بھاجپا نے دہلی چناﺅ میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور اس کی جھولی میں صرف آٹھ سیٹیں آئی ہیں ۔دہلی میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے چناﺅ کی کمان سنبھالی اور انہوںنے دہلی میں ہندو وٹروں کو لبھانے کی کوشش کی مگر تمام کوششوں کے باوجود دہلی کے ووٹروںنے مودی سرکاری کی پالیسی کو مسترد کر دیا اور دھول چٹا دی ایک دوسرے غیر ملکی اخبار نے لکھا ہے کہ دہلی کے چناﺅ بھارت کے لئے سیاسی طور سے اہم ہیں ۔ایک طرف تو اس نے دکھایا کہ لوگوںنے نفرت کی سیاست کو قبول نہیں کیا وہیں ووٹر سیاسی پارٹیوں کی وکاس کے نعروں کو کوئی سنجیدگی سے لیتے ہیں اروند کجریوال کی بھاری جیت اس بات کا اشارہ ہے کہ دہلی کی جنتا نے نفرت کو مسترد کیا اور وکاس کو چنا ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟