عدم اتفاق جمہوریت کا محفوظ والو ہے !

سپریم کورٹ کے جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے سنیچر کو ایک اہم ترین بیان دیا اور ان کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب شہریت ترمیم قانون او راین آر سی کے احتجاج میں دیش بھر کے کئی حصوں میں مظاہرے ہو رہے ہیں جسٹس موصوف نے سنیچر کو کہا کہ عدم اتفاق کو جمہوریت کی حفاظت کے والو کی طرح دیکھنا چاہیے اور عدم اتفاق کو سرے سے ملک مخالف اور جمہوریت مخالف بتا دینا آئینی اقدار کے تحفظ کے بنیادی نظریے پر چوٹ کرتا ہے ۔اور اس پر لگام لگانے کے لئے سرکاری مشینری کاا ستعمال ڈر کا احساس پیدا کرتا ہے ۔جو قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزی کرتا ہے ۔انہوںنے منفی رائے کی سرپرستی کی یہ یاد دلائی کہ جمہوری طور سے ایک منتخب سرکار ہمیں ترقی اور سماجی تال میل کے لئے ایک با قاعدہ موقع فراہم کرتی ہے وہ ان اصولوں و شناختوں پر بھی کبھی ایک طرفہ اختیار کا دعوی نہیں کر سکتی جو ہماری کثیر سماج کو تشریح کرتی ہے ۔جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ رائے زنی والے مذاکرہ کی سرپرستی کرنے کا عزم ہر جمہوریت کا ایک ستون ہے ۔اور کامیاب جمہوریت کا ایک ضروری پہلو بھی ہے ۔جمہوریت کا اصلی امتحان ان گنجائشوں کو پورا کرنے کی صلاحیت ہے جہاں ہر شخص بغیر کسی خوف کے اپنے خیال رکھ سکے آئین میں آزاد خیالی نظریہ رکھنے کا عہد ہے ۔او ر بات چیت کے لئے ایک عہد بند ایک جائز حکومت سیاسی حریف پر پابندی نہیں لگائی گئی بلکہ اس کے خیالات کا خیر مقدم کرئے گی ۔غور طلب ہے کہ جسٹس چندر چوڑ اس بنچ کے حصہ تھے جس نے یوپی میں سی اے اے خلاف مظاہروں کے دوران سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں سے اس کا ہرجانہ وصولنے کے لئے ضلع انتظامیہ کے ذریعہ مبینہ مظاہرین کو بھیجے گئے نوٹس پر جنوری میں ریاستی سرکار سے جواب مانگا تھا ۔انہوںنے کہا کہ نظریات کو رکھنا دیش کے سمان کو بڑھاتا ہے ۔یہ بھی کہا کہ کوئی شخص یا ادارہ بھارت کے تصور پر ایک طرفہ حق رکھنے کا دعوی نہیں کر سکتا انہوںنے کہا کہ آئین کے معیاماروں نے ہندو بھارت یا مسلم بھارت کے نظریے کو مسترد کر دیا تھا ۔انہوںنے صرف جمہوری مملکت کو منظوری دی تھی ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟