شاہین باغ کو لے کر اگلے سات دن اہم ترین

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد شاہین باغ کو لے کر اگلے کچھ دن اہم ترین ہیں ۔شاہین باغ میں شہریت ترمیم قانون اور این آر سی کے خلاف دو مہینے سے شاہین باغ میں چل رہے دھرنے سے متعلق ایک عرضی پر سپریم کورٹ نے جمہوریت میں احتجاج کے حق اور مظاہروں کے ذریعہ عام زندگی ٹھپ کر دینے کے فرق کو بھی مناسب طریقے سے رکھا ۔عدالت کا کہنا تھا کہ جمہوریت نظریات رکھنے کی تو اجازت دیتی ہے لیکن ان کی حدود اور لائن بھی ہیں ۔قابل ذکر ہے کہ شاہین باغ میں مظاہرین نے وہ سڑک بند کر رکھی ہے جو دہلی اور نوئیڈا کو جوڑتی ہے اس سے دہلی اور نوئیڈا کے درمیان سفر کرنے والوں کو مشکلوں کا سامنا کرنا پڑر ہا ہے اس لئے سپریم کورٹ کو کہنا پڑا کہ یہ اشو عام زندگی ٹھپ کرنے سے پریشانی سے جڑا ہے اس نے کہا تھا کہ ایک عام شاہراہ پر طویل مدت کے لئے مظاہرہ نہیں کیا جا سکتا ۔عدالت کی تشویش یہ ہے کہ شاہین باغ کی طرز پر لوگ اگر سماج اور سرکار تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے پبلک مقامات پر مظاہرہ کرنے لگیں تو بڑا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا ۔عدالت کا کہنا تھا کہ مظاہرے کرنے کے لئے جنتر منتر متعین ہے ۔حالانکہ سپریم کورٹ نے سڑک خالی کرانے کی کوئی ہدایت دینے کے بجائے مظاہرین سے بات چیت کرنے کے لئے مذاکرات کار مقرر کر دئے ۔وہ شاہین باغ گئے تھے وہاں دھرنا دے رہی عورتوں کا کہنا ہے کہ اگلی تاریخ پر سپریم کورٹ نے راستہ خالی کرنے کی ہدایت دی تو سبھی مظاہرین اسے تسلیم کریں گے ۔عورتوں نے سپریم کورٹ کے ذریعہ مذکرات مقرر کرنے کا خیر مقدم کیا ۔سپریم کورٹ میں سماعت پیر کو صبح ہے ۔جس وجہ سے شاہین باغ کے مسئلے پر نگاہیں لگی ہوئی تھیں ۔عدالت نے کہا کہ دہلی پولیس اور دہلی سرکار کو مظاہرین سے بات کرنی چاہیے ۔اور عدالت کی طرف سے بات چیت کے لئے وکیل سنجے ہیگڑے ،سادھنا رام چندرن اور سابق انفورمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ ثالثی مقرر کرنےکے لئے دھرنے پر بیٹھی عورتو ں نے خیر مقدم کیا ۔دھرنے پر بیٹھی دادی بلقیس نے اسٹیج سے دوسری عورتوں کو اس کی جانکاری دی دادیوں کا کہنا تھا کہ وہ ثالثیوں کے سامنے اپنی بات مفصل رکھیں گی ۔لیکن پولیس کے کسی بھی افسر سے بات نہیں ہوگی ۔اس معاملے میں پولیس کا رول شروع سے ہی مشتبہ رہا ہے ۔اُدھر سپریم کورٹ میں سماعت سے پہلے شاہین باغ میں معمولی بھیڑ تھی لیکن اس کے بعد وہاں کافی لوگ جمع ہو گئے ۔کچھ لوگ سپریم کورٹ کے فیصلے کو غلط بتا رہے تھے ۔یہ دکھ کی بات ہے کہ راستہ کھلوانے کا بھی کام سپریم کورٹ کو کرنا پڑ رہا ہے ۔یہ کام سرکار کا ہے ۔اگر سرکار کے سطح پر مظاہرین سے بات چیت کی پہل ہوتی تو ممکن ہے کہ حل نکل سکتا تھا لیکن اس سے الٹا کیا گیا ۔مگر اب بھی موقع ہے کہ سرکار چاہے تو بات چیت سے حل نکل سکتا ہے ۔لیکن بات چیت تو شروع کی جاے؟

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟