خواتین کسی سے کم نہیں ،حکومت اپنا دقیانوسی نظریہ بدلے

آج کے دور میں عورتوں نے ہر سطح پر ہر میدان میں یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ گھر سے لے کر باہر تک کسی بھی محاظ پر پیچیدہ سے پیچیدہ حالات میں کام کرنے میں اہل ہیں ۔ان کی صلاحتیوں کو کٹگھرے میں کھڑا کرنا اپنے آپ میں بے حد افسوسناک ہے اب وہ بھی فوج میں کسی فوجی ٹکڑی کی کمان سنبھال سکیں گی ۔پیر کے روز یہ دور رس تاریخی فیصلہ سپریم کورٹ نے دیا ہے ۔مرکزی سرکار کو فٹکار لگاتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ عورتوں کو لے کر مرکز کی دقیانوسی ذہنیت کو بدلنا ہوگا ۔فوجی کمان میں تقرریوں میں خواتین کو شامل نہ کرنا غیر قانونی ہے جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ و جسٹس اجے رستوگی کی بنچ نے کہا کہ لیڈی افسروں کو فوج کے دس شعبوں میں مستقل کمیشن دیا جائے ۔عدالت نے اسے لے کر مرکز کی پچھلی 25فروری کو مستقل کمیشن پالیسی کو منظوری دی تھی ۔حالانکہ بنچ نے صاف کیا کیونکہ جنگی ذمہ داری کے لئے خاتون افسروں کی تعیناتی ایک پالیسی ساز معاملہ ہے ۔اسے سرکار طے کرے سپریم کورٹ نے کہا کہ 2دسمبر 2011کو ہم نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک نہیں لگائی پھر بھی مرکز نے فیصلے کو لاگو نہیں کیا ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل نہ کرنے کی کوئی وجہ یا جواز نہیں ہے ۔عورتوں کی جسمانی قوتوںپر مرکز کے نظریات کو عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ستر سال بعد بھی سرکار نے اپنے نظریے اور ذہنیت میں تبدیلی نہیں کی ۔فوج میں سچی یکسانیت لانی ہوگی ۔اصل میں تیس فیصدی خواتین جنگی علاقوں میں تعینات ہیں اور مستقل کمیشن سے انکار کرنے سے پہلے ہی پریشان ہیں عورتیں خواتین کے برابر ہیں ان کی وہ معاون نہیں سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا عورتیں اپنے مرد افسران کے ساتھ قدم سے قدم اور کندھا سے کندھا ملا کر کام کرتیں ہیں اور لیڈی افسر اپنے ذمہ داری کے معاملے میں کسی بھی طرح کم نہیں ہیں ۔عدالت نے کہا کہ عورتوں کو جسمانی بنیاد پر پرمانینٹ کمیشن نہ دینا آئینی تقاضوں کے خلاف ہے ۔مستقل ذمہ داری سے لے کر یونٹ اور کمان کی قیادت یعنی کمانڈ پوسٹنگ کو لے کر سرکار کا رخ بے حد منفی تھا ۔عدالت میں جس طرح کی دلیلیں دی گئیں وہ نہ صرف بے حد کھوکھلی تھیں بلکہ برابری کے تقاضوں پر مبنی تھیں ۔ایک جدید سماج میں پختگی کے خلاف بھی جہاں خود سرکار کو سماج میں پہلی عورتوں کے تئیں پسماندہ اور سامنتی خیالات کو ٹوٹ کر جنسی برابری کی سمت میں آگے بڑھنے دینا چاہیے تھا ۔وہاں اُس نے عدالت میں عورتوں کی صلاحیت کو کٹگھرے میں کھڑا کیا ۔یہاں تک کہ عورت کے خلا ف اوسطا مردوں کی ذہنیت کو اپنی دلیل میں پیش کیا 51خواتین کو یہ جنگ جیتنے کا یہ سہرا جاتا ہے جو اپنے حق کے لئے لڑتی آرہی ہیں ۔بتا دیں کہ فیصلہ ان افسروں کی عرضی پر ہی آیا ہے اس وقت فوج میں 1653خاتون افسر ہیں جو افسروں کی تعداد کا 3.9فیصد ہے اور 30فیصد خواتین جنگی میدانوں میں تعینات ہیں ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟