بہار میں لیفٹ کا مستقبل کنہیا پر ٹکا ہے !

بہارکے چوتھے مرحلے میں 29اپریل کو پانچ پارلیمانی سیٹوں پر ہونے والے چناو ¿ میں سب سے زےادہ توجہ اس وقت بیگوسرائے پر لگی ہوئی ہے ۔قومی کوی رام دھاری دنکرکی سرزمین بیگوسرائے میں اس بار چناو ¿ نہیں بلکہ دو نظریات کی زبردست ٹکر ہے ۔ایک سامنے پھر سے چناو ¿ لڑنے کی چنوتی ہے تو دوسرے کے سامنے اپنی اچھائی ثابت کرنے کا موقع ہے ۔ہندوستانی کمےونسٹ پارٹی کے امید وار اور اجے این ےو اسٹوڈنٹ لیڈر کنےہا کمار اور بھاجپا کے بربولے نیتا گری راج سنگھ آمنے سامنے ہےں چوتھے مرحلے میں 29اپریل کو 19لاکھ 58ہزار ووٹر جب اپنا ووٹ ڈالیں گے تو ان کے سامنے ایک تیسرا متبادل بھی ہوگا جو آر جے ڈی کے نیتا تنویر حسن کو دوبارہ چناو ¿ میں اتار کر کنےہاکی سیاسی رفتار پر بریک لگانے کی کوشش کی ہے تاکہ لالوپرساد یادو کے جانشیں کا مستقبل محفوظ رہے ۔کنہیا کمار کے آنے سے دےش میں لیفٹ آئےڈےا لوجی کو پھر سے موجودگی درج کرانے کا موقع ملا ہے ۔کمیونسٹ پارٹی کی جڑیں مغربی بنگال کے بعد تری پورہ میں بھی ہل چکی ہے ۔کیرل ایک واحد ریاست ہے جہاں آج بھی لیفٹ آئیڈیالوجی چل رہی ہے ۔بہار کے لینن گراو ¿نڈ کے نام سے مشہور بیگوسرائے نے بھارتی کمیونسٹ پارٹی امید وار کنہیا کمار کے پرچار کرنے کے لئے کئی مشہور ہستیاں لگی ہوئی ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ بھومہاراکثریتی بیگوسرائے میں چاروں طرف برادری کی بات بھی اچھالی جارہی ہے گری راج اور کنہیار دونوں بھومہارہیں ۔تنویر مسلمان لہذا ذات دھرم کی بنیاد پر تجزیہ بنائے بگاڑ ے جارہے ہیں بھاجپا کے روایتی ووٹر اور برادری تجزیہ گری راج کے کام آسکتے ہیں ۔ایسا ہی اتفاق کنہیا کے ساتھ بھی ہے آر جے ڈی کے مضبوط ووٹ مسلم یادو تجزیہ کے سہار ے کھڑے ہیں تنویر حسن تینوں ہی اپنے اپنے ایک طرح سے وجو دکی لڑا ئی لڑرہے ہیں کنہیا کی کامیابی سے بہار میں ایک بار پھر لیفٹ واد کا دوبارہ جنم ہوسکتا ہے ۔گری راج سنگھ جس طریقہ کی سیاست کی علامت مانے جاتے ہیں کنہیا کی شہرت اس کے برعکس ہے ۔جے این یو میں 3سال پہلے کنہیا کی موجودگی میں جو کچھ بھی ہوا اس کی آہٹ بیگوسرائے کی گلی گلی میں سنائی دیتی ہے ۔کنہیا کو کئی جگہ مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑرہا ہے انہیں گھر کا بچہ ماننے والوں کے سامنے ان پر دیش دشمنی کا الزام لگانے والوں کی بھی کمی ہے ۔بھاجپا آجے ڈی کے لوگ اسے جم کر بھنا رہے ہیں ۔کنہیا کو کٹگھڑے میں کھڑا کرنے کی کوشش میں نہ گری راج کے پیچھے نہ لوگ ہیں او رنہی تنویر کے ۔بات چھڑتے ہی دونوں خیموں میں دیش بھگتی کی بات چھڑجاتی ہے ۔ ظاہر ہے دونوں میں سے کوئی کامیاب ہواتو خمیازہ لیفٹ کو ہی بھگنا پڑے گا بھاجپا حمایتوںکا خیال ہے کہ بیگوسرائے میں وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت کشش کا مرکز ہے ۔جبکہ اپوزیشن اتحاد کو امید ہے کہ وہ اپنے سماجی حساب کتاب سے کئی مقامات پر اس کی کاٹ کرسکتے ہیں اگر کنہیا کامیاب ہوجاتے ہیں تو اگلی پارلیمنٹ میں ایک اچھا مقرر پہنچ جائے گا ۔اگر مودی کامیا ب ہوتے ہیں تو انہیں پارلیمنٹ میں کنہیا کا بطور مقرر زبردست سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔سیٹ بدلنے کے گری راج سنگھ چناو ¿ مہم دھیمی شروع ہوئی ہے اور بھاجپا کے اندر بھی انہیں ناکام ہونے کی کوشش سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟